اسکول ٹیچر کا بلیک بورڈ پر تصویر بنانا

سوال کا متن:

میری ایک عزیزہ ا سکول ٹیچر ہے،  وہ بلیک بورڈ پر جان دار اجسام کی تصویر بناتی ہے،  جو عارضی ہوتی ہے،  بچوں کو سمجھانے کے لیے.  کیا یہ درست ہے؟

جواب کا متن:

جان دار کی تصویر بنانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، خواہ بچوں کو   سمجھانے کے لیے عارضی طور پر بنائی جائے،  بہر صورت ممنوع ہے؛ اس  لیے بچوں کو سمجھانے کے  لیے متباد ل طریقہ اختیار کیا جائے یا ایسی تصویر بنائی جائے جو  عرفاً وشرعاً تصویر کے زمرے میں نہ آتی ہو (مثلاً  سر کٹی ہوئی بنائی جائے)۔ البتہ جان دار کے علاوہ دیگر اشیاء (مثلاً: درخت، پہاڑ، دریا وغیرہ) کی تصویر بنانا جائز ہے۔

"عن سعید بن أبي الحسن قال: كنت عند ابن عباس إذ جاءه رجل، فقال: يا ابن عباس! إني رجل إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير، فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ماسمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعته يقول: من صوّر صورةً فإن الله معذّبه حتى ينفخ فيه الروح وليس بنافخ فيها أبداً. فربا الرجل ربوةً شديدةً واصفرّ وجهه. فقال: ويحك! إن أبيت إلا أن تصنع فعليك بهذا الشجر وكل شيء ليس فيه روح. رواه البخاري." (مشکاة المصابیح، باب التصاویر، ص:386 ط:قدیمی)

ترجمہ: سعید بن ابو الحسن روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرا معاشی گزران ہاتھ کی محنت سے ہوتاہے اور میں یہ (جان دارکی) تصاویر بناتاہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں وہی بات سناؤں گا جو  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، (یعنی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہوں گا)  آپ ﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا: جو شخص (جان دار کی) تصویر بنائے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عذاب دیں گے، یہاں تک کہ وہ اس تصویر میں جان / روح نہ ڈال دے، اور وہ اس (تصویر) میں کبھی جان نہیں ڈال پائے گا۔ یہ حدیث سن کر اس شخص نے ایک بڑا اور اونچا سانس لیا اور اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تیرا ناس ہو! اگر تصویر بنانی ہی ہے (یعنی اگر تمہارا گزران نہیں ہوتا) تو ان درختوں کی تصاویر بناؤ اور ہر اس چیز کی جس میں روح نہ ہو۔ (بخاری) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144012201638
تاریخ اجراء :07-10-2019