تصفیہ کے لیے بیوی اور بہن سے قرآنِ مجید اور کلما کی قسم لینے سے طلاق کا حکم

سوال کا متن:

ایک گھر میں شوہر کی بیوی اور بہن  کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوگیا،  دونوں کہہ رہی ہیں کہ دونوں سچی ہیں، اب شوہر نے فیصلہ کرنے کے لیے دونوں سے قرآن پر حلف لیااور دونوں سے کلما کی قسم بھی لی، درمیان میں  شوہر  نے بیوی کو سمجھانے کےلیے یہ الفاظ بولے کہ اگر تم نے کلما کی قسم کھائی  اور تم جھوٹی ہوئی  تو  مجھ پر بھی اور آئندہ ہر مرد پر حرام ہوجاؤگی. اب دونوں نے کلماکی قسم کھا لی تو لڑکی والوں نے کہا کہ اس کو اپنے گھر رکھو تو شوہر نے  کہا : اب تو یہ مجھ پر حرام ہوچکی ہے، میں اس کو کیسے گھر پر بٹھالوں، اب اس کا کیا حکم ہے؟ کوئی طلاق یا حرمت واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اور قرآن کی قسم کا کیا حکم  ہے؟

جواب کا متن:

صورتِ  مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق شوہر نے بیوی اور بہن کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے قرآن پر حلف لیا اور کلما کی قسم لی تو  اور بیوی کو سمجھانے کے لیے کہا کہ ” اگر تم نے کلما کی قسم کھائی  اور تم جھوٹی ہوئی  تو  مجھ پر بھی اور آئندہ ہر مرد پر حرام ہوجاؤگی“ کہا تو اس سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اس کے بعد سسرال والوں کے کہنے پر جب شوہر نے یہ سابقہ واقعہ پر طلاق کا وقوع سمجھ کر یہ کہا کہ” اب تو یہ مجھ پر حرام ہوچکی ہے“ تو یہ طلاق کا  اقرار  ہے، اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی۔ اب اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے  دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ  نکاح کرنا ہوگا، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461):
’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية.

قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘‘. 

2۔۔ قرآن کی قسم نہیں کھانی چاہیے، اگر کسی نے گزری ہوئی کسی بات پر جھوٹی قسم کھائی تو یہ گناہ گار ہوگا،  لیکن اس پر کفارہ نہیں ہوگا، اور  اگر آئندہ کے کسی کام کے کرنے پر قرآن کی قسم اٹھائی تو یہ قسم منعقد ہوجائے گی، اگر وہ کام جائز ہو تو اس قسم کو پورا کرنا چاہیے،  البتہ اگر قسم ٹوٹ جائے یا نامناسب کام پر قسم کھائی تھی اور اسے توڑدیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے, چاہے تو ہر مسکین کو ایک صدقہ فطر کی مقدار (پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت) بھی دے سکتا ہے، یا  دس مسکینوں کو لباس پہنائے، اور ان دونوں صورتوں کی گنجائش نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔

صرف ’’کلما کی قسم‘‘  کہنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، نہ اس سے قسم منعقد ہوگی نہ ہی ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگی۔ فقط واللہ اعلم 

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200300
تاریخ اجراء :25-03-2019