حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبصرہ سے اجتناب کرنا چاہیے

سوال کا متن:

ایک طبقہ ایسا ہے جو حضرت امیر معاویہ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ سونا اور چاندی استعمال کرتے تھے ۔اور اس پر ابوداود کی حدیث بھی پیش کرتا ہے۔  اور یہ کہ وہ حضرت علی پر لعن طعن کرواتے تھے۔  پوچھنا یہ ہے کہ وہ احادیث صحیح ہیں کیا ؟  اگر ان کو روکا جائے تو وہ کہتے ہیں یہ احادیث موجود ہیں،  اور حدیث کو مسلم جھوٹا کہہ بھی نہیں سکتا بغیر تحقیق کے۔  برائے مہربانی اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں!

جواب کا متن:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلہ میں اہلِ سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ یہ حضرات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلا واسطہ فیض یافتہ نفوس ہیں، جن کا انتخاب خود اللہ رب العزت نے فرمایا تھا، اور صحبتِ نبی آخر الزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے انہیں  "رضي الله عنهم و رضوا عنه" کا تمغہ امتیاز نصیب ہوا ہے، لہذا ان حضرات سے بشری تقاضوں کی بنا پر جو کچھ چوک ہوئیں، ان پر تبصرہ کرنے کا کسی کو حق نہیں، ان کا اور اللہ رب العزت کا معاملہ ہے، لہذا اس قسم کے  مباحث سے اجتناب کرنا چاہیے،  اور اپنی آخرت کی منزل سنوارنے کی جستجو میں لگ کر اللہ رب العزت کی خوشنودی کے حصول میں سرگرداں رہنا چاہیے۔

"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا ، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا ) . رواه الطبراني في "الكبير". (2 / 96)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے  باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے، تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144012200284
تاریخ اجراء :10-08-2019