معاشی حالات کے خوف سے اسقاطِ حمل

سوال کا متن:

میری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں اور میرے دو بیٹے ہیں،  چھوٹے بیٹے کی عمر تقریباً 6 ماہ ہے،  ابھی میری اہلیہ تقریباً امید سے ہے۔ اور اس کا دورانیہ تقریباً ایک سے ڈیڑھ ماہ ہو چکا ہے۔ میرے مالی وسائل بھی کچھ زیادہ مناسب نہیں ہیں۔ مندرجہ بالا دونوں صورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ابھی ہم بچے کی پیدائش سے مزید مشکل حالات میں جا سکتے ہیں۔ کیا اسلام یہ اجازت دیتا ہے کہ ڈیڑھ ماہ کے حمل اور معاشی حالات اور ایک دودھ پیتے بچے کی وجہ سے ہم اگلے بچے کی پیدائش نہ کریں؟

جواب کا متن:

حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ   ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے  یا خراب ہوجائے جس  سےپہلے بچے کو نقصان ہو  اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے تو ایسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    حمل  ساقط کرنے کی گنجائش ہے، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا گناہ ہے، اس لیے صرف بچے کی شیرخوارگی کی وجہ سے یا معاشی حالات کے خوف سے  حمل ساقط نہ کروائیں، اگر واقعۃً مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر ہو تو گنجائش ہوگی۔

فتاوی عالمگیریمیں ہے:

"امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو، وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً: أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان". (5 / 356، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، کتاب الکراهیة، ط:رشیدیه) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144012201328
تاریخ اجراء :17-09-2019