شادی سے پہلے کپڑوں کے تبادلے کی ایک رسم

سوال کا متن:

 دلہے والے دلہن کو 7  یا 9  یا  11  جوڑے دیتے ہیں،  لیکن شادی سے پہلے لڑکے والے وہ جوڑے لڑکی کے گھر لے جاتے ہیں اور دکھاتے ہیں اور پھر واپس لے آتے ہیں،  اسی طرح دلہن والے بھی کرتے ہیں،  آیا یہ رسم ریاکاری میں آۓ گی یا نہیں؟  اور جائز ہے  یا نہیں؟  اور اگر جائز نہیں تو جواز کی کیا صورت ہوگی؟

جواب کا متن:

 نکاح کو سادہ اور آسان رکھا گیا ہے اور اس میں تکلفات اور لوازمات کو  ناپسند قرار دیا گیا ہے۔نکاح میں نکاح کا قیام مسجد میں کرنا اور رخصتی کے بعد ولیمہ کرنا، یہ چیزیں شریعت سے ثابت ہیں، اس کے علاوہ جو رسوم اور تکلفات ہمارے ہاں اختیار کیے جاتے ہیں، ان سے نکاح کی سنت مشکل ہوجاتی ہے نیز پیغمبر علیہ الصلاۃ  والسلام نے ارشاد فرمایا : 
"إِنَّ أَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَةً أَیْسَرُه مَؤنَةً". ( مشکاة شریف ۲ ؍ ۲۶۸ ) 
یعنی سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو ۔ 

لہذا مندرجہ بالا عمل کی حیثیت محض ایک رسم کی ہے اور اگر اس رسم کو لازمی اور ضروری سمجھا جاتا ہو یا جانبین سے کپڑوں کا تبادلہ لازمی سمجھا جاتا ہو اور ایسا نہ کرنے والے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہو تو اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ غیر لازم  چیز کو اپنے اوپر لازم کیا جاتا ہے اور دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوجاتا ہے جب کہ شریعت میں کسی کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔ اور اگر اس عمل میں دکھلاوے کی نیت بھی شامل ہو تو ریاکاری کا گناہ اس کے علاوہ ہوگا۔

البتہ اگر دولہا یا دلہن کی پسند معلوم کرنے کی نیت سے کپڑے دکھانےلے جائیں اور کپڑوں کا تبادلہ رسم کی پابندی کی وجہ سے نہ ہو، بلکہ خوش دلی کے ساتھ محض ہدیہ کے طور پر ہو  اور اپنی استطاعت کے بقدر ہو، تکلفات سے اجتناب کیا جائے، جوڑوں کی تعداد یا قیمت کم ہونے پر کسی قسم کی طعن و تشنیع نہ ہو، اور اس کے لیے کسی قسم کا اجتماع نہ ہو اور نہ کوئی تقریب رکھی جائے اور نہ ہی ریاکاری مقصود ہو ، صرف دولہا یا دلہن کے والدین جاکر کپڑے دکھا آئیں تو شرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔

مسند أحمد (5 / 72):
" عَنْ أَبِي حُرَّةَ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ : كُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ، أَذُودُ عَنْهُ النَّاسَ ، فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، هَلْ تَدْرُونَ فِي أَيِّ يَوْمٍ أَنْتُمْ ؟ وفِي أَيِّ شَهْرٍ أَنْتُمْ ؟ وَفِي أَيِّ بَلَدٍ أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : فِي يَوْمٍ حَرَامٍ ، وَشَهْرٍ حَرَامٍ ، وَبَلَدٍ حَرَامٍ ، قَالَ : فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا ، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَهُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْمَعُوا مِنِّي تَعِيشُوا ، أَلاَ لاَ تَظْلِمُوا ، أَلاَ لاَ تَظْلِمُوا ، أَلاَ لاَ تَظْلِمُوا ، إِنَّهُ لاَ يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلاَّ بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ ..."الخ
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144012201430
تاریخ اجراء :25-09-2019