مسبوق کا سجدہ سہو کے لیے امام کے ساتھ سلام پھیرنے کا حکم

سوال کا متن:

امام صاحب کی چار رکعت والی نماز میں پہلی رکعت میں کچھ غلطی ہوگئی،  جس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوا،  اور مسبوق آدمی نے امام صاحب کے ساتھ ہی  سجدہ سہو کرنے کے لیے ایک سلام پھیرلیا تو مسبوق کی نماز ہوجائے گی؟ 

جواب کا متن:

سوال میں مذکور صورت میں مسبوق کو امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرنا چاہیے،  لیکن اگر سہواً  امام کے متصل ساتھ  ہی ایک سلام پھیرلیا تو نماز ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں بعد میں سجدہ سہو بھی نہیں کرنا ہوگا۔ اور اگر جان بوجھ کرسلام پھیرا تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔  اور اگر  سہواً (یعنی بھول کر)  امام کے سلام کا کلمہ کہنے کے بعد سلام پھیرا  تو سجدہ سہو کرنا لازم ہے۔

(قوله :والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود؛ لأنه لايتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد، فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء، فإن سلم فإن كان عامدًا فسدت وإلا لا، ولا سجود عليه إن سلم سهوًا قبل الإمام أو معه؛ وإن سلم بعده لزمه لكونه منفردًا حينئذ، بحر، وأراد بالمعية المقارنة وهو نادر الوقوع، كما في شرح المنية. وفيه: ولو سلم على ظن أن عليه أن يسلم فهو سلام عمد يمنع البناء". [رد المحتار: ٢/ ٨٢-٨٣]فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104200860
تاریخ اجراء :23-12-2019