عدالتی خلع کے بعد دوسرا نکاح کرلیا

سوال کا متن:

1۔  اگر شوہر بیوی کو مارتا ہو ظلم کرتا ہو بیوی سے تقریباً ڈیڑھ سال کسی قسم کے رابطہ نہ رکھے نہ ہی کوئی خرچ دے نہ ہی کوئی بات چیت ہو نہ جسمانی تعلق ہو نہ ہی ایک گھر میں ہوں،  اگر اس صورت میں عورت عدالت میں خلع کا مقدمہ درج کرے اور شوہر طلاق بھی نہ دے، نہ ہی عدالت سے کسی قسم کا رابطہ کرے اور نہ ہی عدالت میں پیش ہو،  اس صورت میں عدالت خلع کا فیصلہ عورت کے حق میں دے دے یعنی کہ عورت اپنے شوہر سے آزاد ہوگئی، اس صورت میں عورت دوسری شادی کر سکتی ہے؟

2۔  سوال اس عورت کی دوسری شادی ہو چکی ہے  تقریباً  15 سال ہوگئے اور ماشاءاللہ 4 بچے بھی ہیں۔  براے مہربانی واضح جواب دے  دیں،  اس میں شریعت کیا بولتی ہے؟ اگر شریعت عدالتی فیصلے کو نہیں مانتی تو اس کا حل کیا ہے؟

جواب کا متن:

1۔ واضح رہے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس کے لیے جانبین یعنی میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے، جس کی وجہ سے  اگر عدالت  شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے دے،  تو شرعاً  ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً عدالت نے مذکورہ خلع کا فیصلہ  شوہر  کی رضا مندی کے بغیر دیا  تھا  تو  خلع مذکورہ فیصلہ شرعاً نافذ نہیں ہوا،  جس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نکاح اول  بدستور قائم رہا، اور مذکورہ خاتون  کے لیے کسی دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہوتھا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول". (كتاب الطلاق، باب الخلع 3/441، ط: سعيد)

2۔  پس اب مذکورہ خاتون کو  چاہیے کہ اپنے اصل شوہر سے طلاق لے لے، یا بذریعہ عدالت تنسیخِ نکاح کرالے، اور تین ماہواریاں بطورِ عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص ( جس سے عدالتی فیصلہ کے بعد 15 سال قبل نکاح کیا تھا) سے نئے سرے سے نکاح کرلے۔

واضح رہے کہ شریعت خلع کے ہر عدالتی فیصلے کو رد نہیں کرتی، بلکہ جو فیصلہ شرعی اَحکام اور شرائط کی رعایت نہ رکھتے ہوئے صادر ہو وہ شریعت کی نظر میں معتبر نہیں ہے، جو  عدالتی خلع شرعی اَحکام سے متصادم نہ ہو وہ عدالتی خلع بھی معتبر ہے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104200259
تاریخ اجراء :05-12-2019