خلع یا طلاق کے بعد بچی کب تک ماں کے پاس رہے گی؟ مقررہ وقت پورا ہونے پر پاب کے پاس جانے کے لیے بچی کی رضامندی ضروری ہے یا نہیں؟ نان نفقہ کا تعین کیسے کیا جائے؟

سوال کا متن:

خلع یا طلاق کے بعد بچی کتنے سال تک والدہ کے پاس رہے گی اور جب مقررہ وقت پورا ہو جائے تو والد بچی لینے کے لیے بچی کی رضامندی دیکھی جائے گی کہ نہیں? جب تک ماں کے پاس ہے شرعی نان نفقہ کا تعین کیسے کیا جائے گا?

جواب کا متن:

خلع یا طلاق کے بعد بچی نو سال تک والد کے پاس رہے گی، نو سال پورے ہونے پر بچی والد کو دے دی جائے گی، چاہے بچی راضی ہو یا نہ ہو۔  بچی جب تک ماں کے پاس رہے گی، اس وقت بھی اس کا نان نفقہ (خرچہ) والد کے ذمہ ہوگا۔  نان نفقہ کے خرچہ کے  تعین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں طرف کے خاندان والوں میں سے دو چار افراد بیٹھ کر  شوہر کی آمدن اور موجودہ دور کے اعتبار سے بچی کے ماہانہ کھانے پینے، لباس، تعلیم اور علاج وغیرہ جیسے بنیادی اخراجات کا اندازا  لگاکر ماہانہ ایک رقم طے کرلیں جس کی ادائیگی والد کے ذمہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبراً وإلا لا، (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".(3/566، باب الحضانة، ط:سعید) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104200697
تاریخ اجراء :18-12-2019