زخم سے مسلسل رطوبت نکلے تو وضو کا حکم

سوال کا متن:

کسی شخص کو جسم کے ایسے حصے پر زخم ہو کہ اٹھتے بیٹھنے میں زخم سے رطوبت نکلتی ہے تو اس شخص کے وضو کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

اگر اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے رطوبت نکلتی ہو اور بیٹھ کر اشارے سے  نماز پڑھنے کی صورت میں یہ معاملہ نہ ہو تو اس صورت میں ایسے شخص کو بیٹھ کر اشارے سے  نماز پڑھنا چاہیے, قیام اور رکوع وسجود کی فرضیت ایسے شخص سے ساقط ہوجائے گی.

حاشية رد المحتار على الدر المختار (2/ 97):
"وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعدًا يومىء ولو صلى قائمًا بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل".

  البتہ اگر  زخم سے  مستقل اتنی زیادہ رطوبت  بہتی ہو کہ  اس کو اتنا وقفہ بھی نہ ملتا ہو جس میں  وضو کرکے پاکی کی حالت میں  چار رکعت نماز ادا کرسکے تو  ایسا شخص  شرعاً معذور کے حکم میں ہے، اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اور ناپاکی کو صاف کرکے  نماز پڑھے، اگر وضو کے بعد جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہوا ہے  اس کے  علاوہ کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرے ، ورنہ دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

 اور اگر  اتنا وقت ملتا ہو کہ رطوبت نکلے  بغیر  چار رکعت نماز ادا کرسکتا ہے  تو  شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہوگا ،  اس صورت میں طہارت کا مکمل اہتمام کرتے ہوئےنماز پڑھے گا ، تاہم نماز کے درمیان  رطوبت نکل جائے تو  وضو  اور نماز ٹوٹ جائے گی۔

 فتاوی شامی  میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لايمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقةً)؛ لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه: الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - ﴿ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ ﴾ [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً)، فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل)". (1/ 305،  کتاب الطهارة، مطلب في أحکام المعذور، ط: سعید) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144103200175
تاریخ اجراء :05-11-2019