عورت کم زور ہونے کی وجہ سے اسقاطِ حمل کا حکم

سوال کا متن:

میری بیگم کو  2 مہینے کا حمل ہے، جب سے حمل ٹھہرا ہے اس وقت سے منتھلی بیماری میں تھوڑا سا خون آیا اور پھر  دوسرے مہینے پر تھوڑا سا خون آیا، جب ہم نے الٹراسونڈ کروایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کی بیگم کافی کم زور ہے اور حمل دو مہینے میں جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں ہے، او ر وزنی چیزاٹھانے سے منع کیا اور آرام کرنے کا کہا۔ لیکن کل پرسوں سے بیگم کافی بیمارہے اور ایسے درد بار بار ہوتا ہے جو بچہ پیدا ہونے پر ہوتاہے تو  اب سوال یہ ہے کہ اگر اس حمل کو ہم ضائع کریں تو کیا ہم گناہ گار تو نہیں ہوں گے، کیوں کہ بیگم کافی کم زور ہے اور درد بھی کافی شدید قسم کا ہوتا ہے؟

جواب کا متن:

ایامِ حمل کی مشقت، ولادت کی تکلیف، رضاعت  اس سلسلہ میں جو بھی تکلیف اور پریشانی برداشت کی جائے گی، یہ سب موجبِ اجرو ثواب ہے، اورحمل و ولادت یہ مرحلہ ہی تکلیف کا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے: {حملته أمّه کرهاً و وضعته کرهاً}  ترجمہ:  ا س کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا، اوربڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا. (قرآن مجید پارہ نمبر ۲۶ رکوع نمبر ۲ سورۂ احقاف) لہذا محض تکلیف اور دشواری کی وجہ سے حمل ضائع کرنا جائز نہیں۔

البتہ جس صورت میں واقعۃً  ماں کی جان کو  حمل سے  خطرہ  ہو  یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو  اور مسلمان دین دار ڈاکٹر کی رائے میں اسقاطِ حمل ضروری ہو، یا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو وغیرہ اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)  حمل  کو ساقط کرنے کی گنجائش ہے، گنجائش کا یہ مطلب ہے کہ کرلیا تو گناہ نہیں ہوگا، اس لیے ایک تو حمل اب تک انسانی شکل میں نہیں ہے، اور دوسرا دیگر خارجی اعذار ایسے ہیں کہ ان میں نقصان زیادہ ہے، اور اگر کوئی عذر نہ ہو تو چار ماہ سے پہلے بھی حمل ساقط کرنا جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ مالاً اور مستقبل میں وہ ایک جان بن جائے گا، جیسے فقہاء نے لکھا ہے کہ حالتِ احرام میں اگر کوئی شخص کسی پرندہ کا انڈا توڑدے  اس کا ضمان لازم آتا ہے، اس لیے کہ وہ مستقبل میں جاکر پرندہ ہی بن جائے گا، جب وہاں جزا  لازم آتی ہے تو یہاں اگر کوئی چار ماہ سے پہلے  حمل بغیر عذر کے ساقط کرادے تو  اسے بھی گناہ ہوگا، اگرچہ وہ گناہ انسانی قتل کے بقدر نہ ہوگا۔

درمختار میں ہے:

"ویکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور".

شامی میں ہے :

"(قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة". (درمختار مع رد المحتار، ج۵ ص ۳۷۹ قبیل کتاب إحیاء الموات) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144105201003
تاریخ اجراء :23-01-2020