روزوں کی نذر ماننے کے بعد روزہ پر قدرت نہ ہونے کا حکم

سوال کا متن:

اگر کسی شخص نے کسی مقصد پورا ہونے کے لیے اپنے اوپر یہ لازم کیا یا نذر مانی کہ اگر اللہ تعالی نے میرا یہ مقصد پورا کیا تو میں ہر مہینے میں تین دن روزے رکھوں گا اور وہ مقصد پورا بھی ہوا، لیکن اب وہ شخص جسمانی کم زوری اور گردوں کی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہے اور فرض روزوں کو بمجبوری رکھتا ہے  تو  کیا اب یہ شخص خواہ مخواہ یہ روزے رکھے یا کوئی اور صورت ہے خلاصی کی؟

جواب کا متن:

مذکورہ شخص پر نذر کی وجہ سے ہر ماہ تین روزے رکھنا واجب ہیں، لیکن اگر وہ بڑھاپے یا کسی دائمی بیماری کی وجہ سے روزے رکھنے پر بالکل قادر نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ ہر روزے کے بدلہ ایک فدیہ دے دیا کرے، زندگی میں روزوں کے فدیہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ  اگر کوئی  شخص ایسا بوڑھا  ہوگیا کہ روزہ رکھنے کی طاقت  نہ رہی  اور آئندہ بھی روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہیں ، یا ایسا بیمار ہوا کہ  روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہی اور آئندہ صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہے،  تاہم فدیہ ادا کرنے کے بعد  اگر موت سے پہلے  روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور وقت بھی ملے تو  ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا،  فدیہ صدقۂ نافلہ سے تبدیل ہوجائے گا۔ 

ایک روزے  کا فدیہ  ایک صدقۃ الفطر  کے برابر  یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔

تمام روزوں کا فدیہ ایک  ہی محتاج  کو ایک ساتھ دینا چاہے تو دیا جاسکتا ہے، فدیہ ادا ہوجائے گا، اور اگر الگ الگ شخص کو  دینا چاہے تو بھی دے سکتا ہے، دونوں صورتوں میں فدیہ ادا ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427):
"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً، ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير، كالفطرة لو موسراً.

(قوله: وبلا تعدد فقير) أي بخلاف نحو كفارة اليمين للنص فيها على التعدد، فلو أعطى هنا مسكيناً صاعاً عن يومين جاز، لكن في البحر عن القنية: أن عن أبي يوسف فيه روايتين، وعند أبي حنيفة لايجزيه، كما في كفارة اليمين، وعن أبي يوسف: لو أعطى نصف صاع من بر عن يوم واحد لمساكين يجوز، قال الحسن: وبه نأخذ اهـ ومثله في القهستاني".  فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144106200481
تاریخ اجراء :08-02-2020