کرایہ پر دی گئی جائیداد، ذاتی جائیداد اور زیورات کی زکات

سوال کا متن:

1 : جو جائیداد کرایہ پر دی گئی ہو اس کی مالیت پر زکات ہوگی یا صرف جو کرایہ مل رہا ہے، اس پر زکات ہوگی؟

2 : جائیداد جو اپنے ذاتی استعمال میں ہو  اس کی مالیت پر کیا زکات ہوگی یا نہیں؟

3 : جو زیورات ذاتی استعمال کے ہوں اور نصاب سے زیادہ ہوں ان پر زکات ہوگی؟

4 : جو جائیداد وصیت میں دینے کا ارادہ ہے اور فی الوقت کرایہ پر دی ہوئی ہے یا خالی ہے تو اس پر زکات ہوگی یا نہیں؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ صرف تجارت کی نیت سے رکھی ہوئی جائیداد پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوتا ہے، ذاتی استعمال یا کرایہ پر دی جانے والی یا دی گئی جائیداد  کی مالیت پر زکاۃ نہیں ہے؛ لہذا:

1 :  کرایہ پر دی گئی جائیداد  کے صرف کرایہ پر زکات ادا کرنا ہوگی، بشرطیکہ وہ کرایہ بچت میں ہو اور تنہا یا دوسرے قابلِ زکات مال کے ساتھ مل کر نصاب تک پہنچ جائے اور مالِ زکات پر سال پورا ہوجائے۔

2 :  ذاتی استعمال کی جائیداد پر زکات نہیں ہے۔

3 :  ذاتی استعمال کے زیورات نصاب یا اس سے زیادہ ہوں تو سال گزرنے پر اس کی زکات کی ادائیگی واجب ہے۔ اگر صرف سونا موجود ہے، اس کے علاوہ نہ تو چاندی ہے نہ ہی بنیادی ضرورت سے زیادہ نقد یا مالِ تجارت ہے تو نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، اس سے کم سونے پر زکات واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر سونے کے ساتھ  بنیادی ضرورت سے زائد نقد رقم یا مالِ تجارت یا چاندی موجود ہے، خواہ یہ اموال کم مقدار میں ہوں، لیکن سونے اور دیگر اموال کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سال پورا ہونے پر زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔ 

4 : وصیت میں دینے کے ارادے سے زکاۃ کے مسئلہ میں فرق نہیں آئے گا؛ کیوں کہ وہ جائیداد اب بھی اسی آدمی کی ملکیت میں ہے۔  باقی کرایہ پر دی گئی جائیداد کی تفصیل پہلی شق میں بیان کی جاچکی ہے۔ خالی جائیداد  اگر تجارت (نفع پر بیچنے) کی نیت سے لی ہو  تو اس پر زکات  ہوگی ورنہ نہیں۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144106200512
تاریخ اجراء :08-02-2020