شادی کے موقع پر لفافوں کا تبادلہ

سوال کا متن:

شادی پر لفافوں کا دینا گناہ ہے؟ اور اگر کوئی دے تو اس کو لکھ لیں کہ فلاں بندے نے اتنے پیسے دیے تھے، اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

شادی کے موقع پر ہر خاندان اور علاقہ کا عرف مختلف ہوتا ہے، اگر کسی خاندان کا عرف یہ ہے کہ وہ شادی کے موقع پر لفافہ ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دیتے ہوں، اس کو لکھتے نہ ہوں اور بعد میں اتنی ہی رقم ان کی شادی میں دینے کی نیت نہ ہو تو  یہ ہدیہ ہے، اس کا لین دین جائز ہے، شرعاً کچھ حرج نہیں۔

اور اگر ایک دوسرے کو لفافوں کا دینا عوض اور بدل کے طور پر ہوتا ہو کہ جتنے فلاں نے دیے ہیں ان کی شادی میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گا تو یہ سودی قرض ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے ہیں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ قرض ہے، اور اسی قدر واپسی لازم ہے۔

اگر کسی علاقے میں شادی کے موقع پر ہدایا کا لین دین نیوتہ کی رسم کے طور پر ہوتا ہو  تو  بہتر یہ ہے کہ انہیں ہدیہ کے اَحکام نرمی و حکمت سے سمجھا دیے جائیں کہ ہدیہ اپنی استطاعت کے مطابق اور طیبِ نفس (نفس کی خوشی) کے ساتھ بلاتکلف دینا چاہیے، اور ہدیہ دینے کے بعد واپسی کی امید نہیں رکھنی چاہیے،  نیز یہ کہ دین ہمیں تکلفات سے گریز کا حکم دیتاہے، بہر حال ہدایا کا لین دین بطورِ رسم و قرض قابلِ حوصلہ شکنی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):
"وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ.
قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه".
 فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144106200681
تاریخ اجراء :12-02-2020