مقروض کا بلا وجہ ٹال مٹول کرنا

سوال کا متن:

مجھ  سے ایک دوست نے کچھ  رقم یہ کہہ کر قرض لیا کہ اسے اپنا فلیٹ بیچ کر نیا فلیٹ لینا ہے اور یہ کہا کہ پرانا فلیت بیچ کر آپ کے پیسے دو ماہ میں لوٹا دوں گا. اس نے نیا فلیٹ لے کر پرانا فلیٹ نہیں بیچا، بلکہ کرائے پر کسی کو دے دیا. اس بات کو تین سال ہوگئے ہیں، جب بھی پوچھتا تھا تو یہی جواب ملتاہے  کہ اچھی قیمت نہیں مل رہی. اب پتا چلا ہے کہ ایک اور فلیت خرید رہا ہے. اب فون اور میسج کا جواب بھی نہیں دیتا اور نہ ہی رابطہ کرتا ہے.

قرآن و حدیث کی روشنی میں میری راہ نمائی فرمائیں کہ میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کرنے کا حق رکھتا ہوں؟ اور  میں اسے کتنا وقت دوں جب کہ وہ اپنا پرانا فلیٹ بھی بیچنے کو تیار نہیں؟ چوں کہ رقم بھی بڑی ہے اس لیے معاف بھی نہیں کرسکتا.

جواب کا متن:

واضح رہے کہ قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا  ظلم ہے، اور ایسے شخص کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے شرعاً ظالم کہا جائے گا، نیز  استطاعت کے باوجود اگر کوئی قرض نہ اتارے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس وعید کا مستحق نہ بن جائے جس کے مطابق مقروض شہید بھی ہوجائے تو قرض کے وبال سے اسے خلاصی نہیں ملے گی، جب کہ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ ﷺ ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔

لہٰذا صورتِ بالا میں سائل اپنے قرضے کے فوری مطالبے اور قانونی کار روائی کا شرعاً حق رکھتا ہے، اور مقروض کا ذکر کردہ طرزِ عمل شرعاً ظلم اور ناجائز ہے۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعُ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144106200700
تاریخ اجراء :12-02-2020