ترکہ کی تقسیم، ورثاء: بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں

سوال کا متن:

 میرے والد صاحب کا انتقال 2009 میں ہوا تھا، میرے والد صاحب کی ملکیت ایک مکان تھا،  ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں،  ہماری ایک شادی شدہ بہن کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہو گیا تھا، ہماری مرحوم بہن سمیت چار بہنیں ہیں اور الحمداللہ ہماری والدہ بھی حیات ہیں،  ہم نے مطلب میں نے اور میرے بھائی نے والد صاحب کی ملکیت مکان بیچ دیا اور اپنے لیے ایک مشترکہ مکان بنوایا ہے جس میں اپنے والد صاحب کے مکان کی فروخت کے پیسے بھی شامل کرلیے تھے،  میں اب چاہتا ہوں کہ ہم اپنی بہنوں کو اور والدہ کو باپ کی وراثت میں جو حق ہے وہ ادا کر دیں، اس کی مکمل تفصیل بتا دیں۔

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (قرض، وصیت وغیرہ)  کی ادائیگی کے بعد مرحوم کے ترکہ میں سے بیوہ کو  12.5%، ہر بیٹے کے 25% اور ہر زندہ بیٹی کو 12.5% ملے گا۔

جس بیٹی کا مرحوم کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا اس کا مرحوم کی وراثت میں حصہ نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وراثت میں حصہ صرف مرنے والے کے زندہ وارثین کا ہوتا ہے۔

مرحوم کا جو گھر  مرحوم کے بیٹوں نے بیچ کر دوسرے گھر  میں اس کے پیسے لگائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ جس تناسب سے پیسے دوسرے گھر میں لگائے، اس تناسب سے اس گھر کی موجودہ قیمت میں تمام ورثاء کا اپنے حصوں کے حساب سے حق ہوگا۔ مثلاً آدھی  قیمت والد کے ترکے کے فروخت کردہ گھر کی مالیت تھی اور آدھی قیمت سائل اور اس کے بھائی نے ملائی تھی تو خرید کردہ مکان کے نصف میں تمام ورثاء شریک ہوں گے۔

بہرحال اس گھر میں موجود حصے اور مرحوم والد کی دیگر جائیداد اگر ہے تو سب کو ملاکر درج بالا فیصدی تناسب کے اعتبار سے ترکہ تقسیم کردیجیے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144106200851
تاریخ اجراء :15-02-2020