ایصالِ ثواب قبر پر کرنا افضل ہے یا دور سے بھی کرسکتے ہیں؟

سوال کا متن:

کیا قبرپرجاکرتلاوت کرنا زیادہ افضل ہے یا کہیں سے بھی پڑھ کر مردے کو بخشا جاسکتا ہے؟ کیا مردے کو علم ہوتا ہے کہ کون اس کی قبر پر آیا؟

جواب کا متن:

۱-   اہلِ سنت والجماعت کے ہاں ایصالِ ثواب کے لیے قبر پر یا غائبانہ طور پر  دونوں طرح قرآنِ کریم پڑھنا جائز ہے اور اس کا  ثواب مردے کو پہنچتا ہے،  ایصالِ ثواب کا  کوئی مخصوص طریقہ یا خاص طور پر قبر پر جاکر پڑھنے کا التزام بھی  ثابت نہیں ہے، کسی بھی جگہ سے پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے قبر کے قریب یا دور کسی مقام کی افضلیت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ 

قال في الدر:

"وَبِزِيَارَةِ الْقُبُورِ وَلَوْ لِلنِّسَاءِ لِحَدِيثِ: «كُنْت نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا». وَيَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ. وَيَقْرَأُ يس، وَفِي الْحَدِيثِ: «مَنْ قَرَأَ الْإِخْلَاصَ أَحَدَ عَشَرَ  مَرَّةً ثُمَّ وَهَبَ أَجْرَهَا لِلْأَمْوَاتِ أُعْطِيَ مِنْ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ»".

وفي الرد:

(قَوْلُهُ: وَيَقْرَأُ يس)؛ لِمَا وَرَدَ: «مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأَ سُورَةَ يس خَفَّفَ اللَّهُ عَنْهُمْ يَوْمَئِذٍ، وَكَانَ لَهُ بِعَدَدِ مَنْ فِيهَا حَسَنَاتٌ». بَحْرٌ. وَفِي شَرْحِ اللُّبَابِ: وَيَقْرَأُ مِنْ الْقُرْآنِ مَا تَيَسَّرَ لَهُ مِنْ الْفَاتِحَةِ وَأَوَّلِ الْبَقَرَةِ إلَى الْمُفْلِحُونَ، وَآيَةِ الْكُرْسِيِّ - وَآمَنَ الرَّسُولُ -، وَسُورَةِ يس، وَتَبَارَكَ الْمُلْكُ، وَسُورَةِ التَّكَاثُرِ، وَالْإِخْلَاصِ اثْنَيْ عَشَرَ مَرَّةً أَوْ إحْدَى عَشَرَ أَوْ سَبْعًا أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ أَوْصِلْ ثَوَابَ مَا قَرَأْنَاهُ إلَى فُلَانٍ أَوْ إلَيْهِمْ. اهـ. مَطْلَبٌ فِي الْقِرَاءَةِ لِلْمَيِّتِ وَإِهْدَاءُ ثَوَابِهَا لَهُ". [الدر مع الرد : ٢/ ٢٤٢-٢٤٣]

۲- تجہیز وتکفین اور تدفین کے وقت کے متعلق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غسل دینے والے، کفن پہنانے والے اور لحد میں اتارنے والے کو میت پہچانتی ہے۔ (شرح الصدور ، ص: ۱۲۵، بحوالہ مسند احمد و المعجم الاوسط للطبرانی، المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر)

اس کے علاوہ قبر پر آنے والے ہر فرد کو ہر مردہ پہچانتا ہے یا نہیں؟  اس کی تصریح بھی نہیں اور نفی بھی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ قادر ہیں کہ وہ جب چاہیں جس مردے کو چاہیں آنے والے کی آواز سنائیں بھی، اسے سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت بھی دیں، اور چاہیں تو اسے یہ صلاحیت نہ دیں۔

واضح رہے کہ یہ حکم عام مسلمان مردوں کا ہے، انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام چوں کہ اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں، اور انہیں جسمانی حیات حاصل ہے، وہ اپنی قبورِ مبارکہ پر آکر کر سلام کرنے والوں کا سلام سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں، اور پہچانتے بھی ہیں، اور دور سے بھیجا گیا سلام ان تک پہنچا دیا جاتاہے، اسے بھی وہ پہچانتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144103200677
تاریخ اجراء :25-11-2019