خلع لینے کی صورت میں حق حضانت

سوال کا متن:

میں اپنے شوہر  کی دوسری بیوی ہوں، اُن سے میرا ایک بیٹا ہے جس کی عمر تقریباً 18  ماہ ہے،  شادی کے بعد سے لڑائی جھگڑا مار پیٹ کرتے ہیں اور ضروریاتِ زندگی کے اخراجات بھی نہیں دیتے ہیں،  زیادہ اوقات والدہ کے گھر میں چھوڑ دیتے ہیں. اگر میں خلع لے لوں تو شرعی طور پر میرا بیٹا میرے پاس ہی رہےگا اور پرورش کی بعد میرے بیٹے کے والد اُس کو اپنے پاس رکھنے کے مجاز ہوں گے؟ اس بارے میں شرعی راہ نمائی کردیجیے!

جواب کا متن:

اگر خاندان کے بڑوں کے ذریعے یا کسی طرح مسئلہ حل ہوسکتا ہو تو اولاً نباہ کی کوشش کیجیے، اور اگر نباہ کی صورت نہ بنے تو شوہر کو ایک طلاق دے دینی چاہیے، عدت گزار کر آپ دوسری جگہ نکاح میں آزاد ہوں گی، اگر وہ بلاعوض طلاق دینے پر بھی راضی نہ ہو تو آپ اس سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہیں، اگر وہ خلع پر راضی ہو تو خلع درست ہوگا، اگر وہ خلع پر راضی نہ ہو تو یک طرفہ خلع درست نہیں ہوگا، اگر واقعۃً وہ آپ اور آپ کے بچے کے نان نفقے کے اخراجات نہیں اٹھاتا اور مار پیٹ بھی کرتاہے اور کسی طرح حقوق ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو عدالت میں تنسیخِ نکاح بوجہ عدمِ ادائے نفقہ و حقوق کی درخواست دائر کرکے جان خلاصی کی صورت ہوسکتی ہے۔

بہرحال جدائی ہونے کی صورت میں بچے کی عمر سات سال ہونے تک اور بچی کی عمر نو سال ہونے تک ، ان کی  پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہوتا ہے، مذکورہ عمر کو پہنچ جانے کے بعد پرورش و تربیت کا حق والد کو حاصل ہوتا ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اولاً  تو نباہ کی مکمل کوشش کریں اور اگر علیحدگی ہو جائے تو حضانت کا حق آپ کے پاس 7 سال تک رہے گا (بشرطیکہ آپ بچے کے ذی رحم محرم کے علاوہ سے شادی نہ کریں)،  پھر یہ حق والد کا ہوگا۔

الفتاوى الهندية (11 / 315):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق".

الفتاوى الهندية  (11 / 326):

"ولا حضانة لمن تخرج كل وقت وتترك البنت ضائعةً، كذا في البحر الرائق".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 555):

"قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرةً بالغةً عاقلةً أمينةً قادرةً، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ".

شرح الأحكام الشرعية في الأحوال الشخصية، (3 / 52):

"والحاضنة يشترط فيها ثمانية شروط:

أولاً: أن تكونَ حرَّةً؛ لأن الرقيقةَ مشغولةٌ بخدمة سيدها؛ فلايمكنها القيام بتربيّة الولد.

ثانياً: أن تكون بالغةً؛ لأن القاصرةَ محتاجةٌ إلى مَن يكفلها؛ فكيف تكفل غيرها.

ثالثاً: أن تكون عاقلةً؛ لأن المجنونةَ لاتحفظ الولد، بل يخشى عليه منها الهلاك.

رابعاً: أن تكون أمينةً على المحضون وتربيته بحيث لايضيع الولد عندها بسبب اشتغالها عنه بالخروج إلى ملاهي الفسوق، بأن تكون مغنَّيةً أو نائحةً، أو متهتكةً تهتكاً يترتب عليه ضياع الولد.

خامساً: أن تكون قادرةً على خدمته، فلو كان بها مرضٌ يعجزها عن القيام بمصالحه لم تكن أهلاً للحضانة.

سادساً: أن لاتكون مرتدَّةً: أي خارجةً عن دين الإسلام بعد أن اعتنقته؛ لأن جزاءها الحبس حتى تسلم، ومَن كانت حالتها هكذا فلاتقدر على خدمة الولد.

سابعاً: أن لاتكون متزوِّجةً بغير رحم محرَّم للمحضون؛ لأن الأجنبيَّ ينظر إليه شزراً، ويبطن له الكراهة ويضمر السوء لأمّه؛ لأنه يظنّ أنها تطعمه من ماله، وربّما اشتدّ بين أمّه وزوجها الخلاف، ويترتب على ذلك ما لاتحمد عقباه.

ثامناً: أن لاتمسكَه الحاضنةُ في بيت مَن يبغضه ويكرهه؛ لأن إمساكَها إيّاه عنده يترتّب عليه ضرر الولد وضياعه، والمقصود من الحضانة حفظ الولد والقيام بخدمته". فقط والله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109200671
تاریخ اجراء :29-04-2020