حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے لفظ فوت استعمال کرنا

سوال کا متن:

کیا حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق لفظ " فوت" استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اللہ نے بھی کہا ہے، ”إني متوفيك“ قرآنِ مجید میں سورۃ آل عمران میں استعمال ہوا ہے؟

جواب کا متن:

قرآنِ کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے لفظ "متوفي" استعمال ہوا ہے،  "متوفي" اسمِ فاعل ہے، جس میں حال کی طرح استقبال کا معنیٰ بھی مراد ہوتاہے، اور آیتِ مبارکہ میں اگر ’’توفي‘‘ کا وہ معنیٰ مراد ہو جیسے سمجھاجاتاہے تو یہاں اسمِ فاعل بمعنیٰ مستقبل ہے، تفصیل ذیل میں آرہی ہے، بہرحال قرآنِ کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے لفظِ ’’فوت‘‘  استعمال نہیں ہوا، لہذا اردو کے لفظ ’’فوت‘‘  کا استعمال حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے کرنا درست نہیں۔

مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ آیت مبارکہ{إذ قال الله يعيسي إني متوفيك و رافعك إلي و مطهرك من الذين كفروا} کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"لفظ متوفی کا مصدر توفی اور مادہ وفی ہے، اس کے اصل معنی عربی لغت کے اعتبار سے پورا پورا لینے کے ہیں، وفاء، استیفاء، ایفاء اور استیفاء اسی معنی کے لیے بولے جاتے ہیں، توفی کے بھی اصلی معنی پورا پورا لینے کے ہیں، تمام کتب لغت عربی زبان کی اس پر شاہد ہیں، اور چوں کہ موت کے وقت انسان اپنی اجل مقدر پوری کرلیتا ہے اور خدا کی دی ہوئی روح پوری لے لی جاتی ہے اس کی مناسبت سے یہ لفظ بطور  کنایہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور موت کا ایک ہلکا سا نمونہ روزانہ انسان کی نیند ہے، اس کے لیے بھی قرآن کریم میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے: (اللہ لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آتی ان کی نیند کے وقت)۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الجواب الصحیح (ص:83 ج:2) میں فرمایا:

التوفي في لغة العرب معناها: القبض و الاستيفاء، و ذلك ثلاثة أنواع: أحدها التوفي في النوم، و الثاني توفي الموت، و الثالث توفي الروح و البدن جميعاً.

اور کلیات ابو البقاء میں ہے:

"التوفي: الإماتة، و قبض الروح، و عليه استعمال العامة، أو الاستيفاء و أخذ الحق، و عليه استعمال البلغاء.

اسی لیے آیت مذکورہ میں لفظ "متوفیك" کا ترجمہ اکثر حضرات نے پورا لینے سے کیا ہے، جیسا کہ ترجمۂ  شیخ الہند میں مذکور ہے، اس ترجمہ کے لحاظ سے مطلب واضح ہے کہ ہم آپ کو یہودیوں کے ہاتھ میں نہ چھوڑیں گے، بلکہ خود آپ کو لے لیں گے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ اپنی طرف آسمان پر چڑھا لیں گے۔

اور بعض حضرات نےاس کا ترجمہ موت دینے سے کیا ہے، جیسا کہ ’’بیان القرآن‘‘  کے خلاصہ میں اوپر مذکور ہے، اور یہی ترجمہ مفسر القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اسانیدِ صحیحہ کے ساتھ منقول ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی منقول ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ حق تعالی نے اس وقت جب کہ یہودی آپ کے قتل کے درپے تھے آپ کی تسلی کے لیے دو لفظ ارشاد فرمائے، ایک یہ کہ آپ کی موت ان کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نہیں، بلکہ طبعی موت کی صورت میں ہوگی، دوسرا یہ کہ اس وقت ان لوگوں کے نرغے سے نجات دینے کی ہم یہ صورت کریں گے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھا لیں گے، یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔

تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت اس طرح منقول ہے:

"وأخرج إسحاق بن بشر، و ابن عساكر من طريق جوهر عن الضحاك عن ابن عباس في قوله: {إني متوفيك ورافعك} يعني رافعك ثم متوفيك في آخر الزمان.

اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ توفی کے معنی موت ہی کے ہیں، مگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے، "رافعك" کا پہلے اور "متوفیك" کا وقوع بعد میں ہوگا، اور موقع پر "متوفیك" کو مقدم ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت اس پورے معاملے کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آگے آنے والا ہے، یعنی یہ اپنی طرف بلا لینا ہمیشہ کے لیے نہیں، چند روزہ ہوگا اور پھر اس دنیا میں آئیں گے اور دشمنوں پر فتح پائیں گے اور بعد میں طبعی طور پر آپ کی موت واقع ہوگی، اس طرح دوبارہ آسمان سے نازل ہونے اور دنیا پر فتح پانے کے بعد موت آنے کا واقع ایک معجزہ بھی تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے اعزاز و اکرام کی تکمیل بھی، نیز اس میں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال بھی تھا، ورنہ ان کے زندہ آسمان پر چلے جانے کے واقعہ سے ان کا عقیدہ باطل اور پختہ ہوجاتا کہ وہ بھی خدا تعالی کی طرح حی قیوم ہے، اس لیے پہلے "متوفیك" کا لفظ ارشاد فرمایاکہ ان تمام خیالات کا ابطال کردیا ، پھر اپنی طرف بلانے کا ذکر فرمایا‘‘۔ (معارف القرآن 2/ 73 تا 75 ط: مکتبہ معارف القرآن)

’’یہاں وفات کا لفظ استعمال ہوا ہے، فوت نہیں، اور یہاں وفات کا مشہور معنی (جسم اور روح کا قبض کرنا) مراد لیں تو یہ جملہ قیامت سے پہلے کے وقت کے لیے ہے، معنی یہ ہو گا کہ : اے عیسیٰ میں ہی تم کو وفات دینے والا ہوں،  یہود تم کو قتل نہیں کر سکتے، جب وفات کا وقت آئے گا، تو میں تم کو قبض کروں گا اور تم کو اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تم کو کفار کی تہمت سے پاک کروں گا‘‘۔ (کفایت المفتی 2 / 126 ط: دار الاشاعت)فقط واللہ اعلم

حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

کیا قرآنِ مجید کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے؟

حیات عیسی علیہ السلام پر کتاب

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144106201283
تاریخ اجراء :24-02-2020