کرونا وائرس اور دیگر وبائی امراض میں مسلمانوں کے لیے راہ نمائی

سوال کا متن:

آج کل جو کرونا وائرس کے نام سے ایک وبا عام ہے، اس حوالہ سے ہم مسلمانوں کے لیے شریعت میں کیا راہ نمائی ہے؟ اور کرونا وائرس اور دیگر متعدی و مہلک امراض سے بچنے کی مسنون دعا یا وظیفہ کیا ہے؟

جواب کا متن:

طاعون اور وباؤں کے پھیل جانے کی وجہ گناہوں کی کثرت اور اللہ کے احکام کی نافرمانی ہے جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے :

{فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ} [البقرہ: 59]

ترجمہ :  ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک آفت سماوی (وہ آفت سماوی طاعون تھا۔از حاشیہ) اس وجہ سے کہ وہ عدول حکمی(نافرمانی) کرتے تھے۔(بیان القرآن)

حدیثِ مبارک  میں ہے :

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:  اے جماعتِ مہاجرین!!  پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہو جاؤ ۔اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔

1۔ پہلی یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔

2۔ اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشا ہوں (حکم رانوں) کے ظلم وستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے ۔

3۔ اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکاۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ بر سے۔

4 ۔ اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔

5۔ اور جب مسلمان حکم ران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ اَحکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔

سنن ابن ماجه (2/ 1332):
"عن عبد الله بن عمر، قال: أقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " يا معشر المهاجرين! خمس إذا ابتليتم بهن، وأعوذ بالله أن تدركوهن: لم تظهر الفاحشة في قوم قط، حتى يعلنوا بها، إلا فشا فيهم الطاعون، والأوجاع التي لم تكن مضت في أسلافهم الذين مضوا، ولم ينقصوا المكيال والميزان، إلا أخذوا بالسنين، وشدة المئونة، وجور السلطان عليهم، ولم يمنعوا زكاة أموالهم، إلا منعوا القطر من السماء، ولولا البهائم لم يمطروا، ولم ينقضوا عهد الله، وعهد رسوله، إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم، فأخذوا بعض ما في أيديهم، وما لم تحكم أئمتهم بكتاب الله، ويتخيروا مما أنزل الله، إلا جعل الله بأسهم بينهم".

                              غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جن اعمال کی نشان دہی  کی، آج امت میں جب وہ گناہ عام ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ کی مختلف صورتیں آنے لگی ہیں،  لہذا اس کا حل اللہ کی طرف رجوع کرنا، توبہ واستغفار کرنا،  اپنے گناہوں پر خوب ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگرانا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد  ادا کرنا، مدارس اور مساجد کو آباد کرنا  اور  صدقہ وخیرات کی کثرت  کرنا ہے،   بحیثت مسلمان ان وباؤں سے بچنے کے لیے ظاہری اسباب کے ساتھ ہمیں اس حقیقی سبب  کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، چہ جائے کہ ہم عبادات میں مزید کوتاہی کرنے لگ جائیں، ایسے حالات میں مساجدوں کو اور بھی زیادہ آباد کرنے کی ضرورت ہے۔

قاضی عبد الرحمن القرشی الدمشقی الشافعی اپنے زمانہ میں 764 ھ کے طاعون سے متعلق لکھتے ہیں:

’’جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں،  بچوں، اور عورتوں نے گھروں کو چھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑ لیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا‘‘۔

قال قاضي صفد محمد القرشي (ت: بعد ٧٨٠هـ) في (شفاء القلب المحزون في بيان ما يتعلق بالطاعون/مخطوط) ‏متحدثًا عن الطاعون سنة ٧٦٤هـ:

  ‏«وكان هذا كالطاعون الأول عمّ البلاد وأفنى العباد، و كان الناس به على خير عظيم: ‏مِن إحياء  الليل، وصوم النهار، والصدقة، والتوبة .... ‏فهجرنا البيوت؛ ولزمنا المساجد،  ‏رجالنا وأطفالنا ونساءنا؛ ‏فكان الناس به على خير".

حیاۃ الصحابۃ میں ہے :

’’حضرت سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کہتے ہیں:  جب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اُردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا:
میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، زکاۃ ادا کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کو (نیکی کی) تاکید کرتے رہو اور اپنے امیروں کے ساتھ خیرخواہی کرو اور ان کو دھوکا مت دو اور دنیا تمہیں (آخرت سے) غافل نہ کرنے پائے؛ کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے (ایک نہ ایک دن) اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا جسے تم دیکھ رہے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے مرناطے کر دیا ہے، لہٰذا وہ سب ضرور مریں گے اور بنی آدم میں سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو اپنے ربّ کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور اپنی آخرت کے لیے سب سے زیادہ عمل کرے۔ (2/165، ط: مکتبۃ الحسن)

نیز ایسے وقت میں خوف وہراس اور دہشت پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے،  ایک دوسروں کو حوصلہ دینا چاہیے، بے جا توہم پرستی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، محض مرض کے خوف سے عبادات ترک نہیں کرنی چاہییں، ظاہری جائز اسباب اختیار کرکے اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔

کرونا اور دیگر وبائی امراض سے حفاظت کے لیے دعائیں:

صبح وشام (فجر اور مغرب کے بعد ) تین تین  مرتبہ مندرجہ  ذیل دعاؤں کا اہتمام کریں :

( 1)     "أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ".

(2)   "بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لاَ يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْئٌ فِيْ الأَرْضِ وَ لاَ فِيْ السَّمَاءِ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ".

اور درج ذیل درود شریف کا کثرت سے ورد کیا جائے:

" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ کُلِّ دَاءٍ وَ دَوَاءٍ وَ بِعَدَدِ کُلِّ عِلَّةٍ وَشِفَاءٍ وَبَارِک وَسَلِّم". (شفاء القلوب ، ص:223 ، ط: مکتبہ نبویہ ،۔ ذریعۃ الوصول الی جناب الرسول ﷺ،درود نمبر 144،۔روح البیان۔7/234، ط: دارالکتب العلمیہ)

ان اعمال کے اہتمام سے ان شاء اللہ تعالیٰ کرونا وائرس اور تمام وبائی ، روحانی اور جسمانی امراض سے حفاظت ہوگی۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144107200753
تاریخ اجراء :14-03-2020