والدین کا اپنی بیٹی کو مردانہ ہیئت اختیار کروانا

سوال کا متن:

ہمارے ایک عزیز کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، مگر ماں باپ دونوں نے اپنی ایک لڑکی کو جس کی عمر6/7 سال ہوگی، وضع قطع کے لحاظ سے لڑکا بنا رکھا ہے،  یعنی اُسے لڑکے کا لباس پہناتے ہیں،  بال بھی لڑکے کی طرح بنواتے ہیں، بلکہ وہ لڑکی لڑکوں کی طرح ہی بات چیت کرتی ہے، کیا یہ طرز عمل ٹھیک ہے؟ اگر نہیں تو گناہ گار کون ہو گا؟

جواب کا متن:

عورت کے لیے مردوں کا مخصوص لباس پہننا یا ان کی ہیئت اختیار کرنا یا مردوں کے لیے عورتوں کی ہیئت اختیار کرنا یا ان کے مخصوص لباس پہننا شرعاً ناجائز  اور گناہ ہے، حدیثِ مبارک میں ایسی لوگوں پر لعنت کی گئی ہے:

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ: ”رسول اللہ ﷺ نے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے“۔

حضرت ابوہریرہ  ؓ  فرماتے ہیں:”حضور اکرم ﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورت کا لباس پہنتا ہو اور اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کا لباس پہنتی ہو“۔

حضرت ابن ابی ملیکہ  ؓ  فرماتے ہیں: حضرت عائشہ   ؓ   سے کہا گیا کہ ایک عورت مردوں والا جوتا پہنتی ہے، حضرت عائشہ   ؓ   نے فرمایا : ”رسول اللہ ﷺ نے مردانہ پن اختیار کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے“۔

لہذا مردوں کے لیے زنانہ ہیئت اختیار کرنا اور عورتوں کے لیے مردانہ ہیئت اختیار کرنا شرعاً ممنوع اور لعنت کا سبب ہیں،  جو  والدین اپنے سمجھ دار بچوں کو یہ ہیئت اختیار کرواتے ہیں وہ اس گناہ میں شریک ہیں،  نیز یہ بچوں کی تربیت، ان کی ذہنی کارکردگی، اور مستقبل میں ان کے اخلاقیات پر انتہائی برا اثر کریں گی، نوزائیدہ بچوں کو بچیوں کے یا بچیوں کو بچوں کے کپڑے پہنانے میں حرج نہیں ہے، تاہم جب بچے سمجھ دار ہوجائیں (اور سات سال کی بچی سمجھ دار ہوتی ہے) تو انہیں ایسا لباس پہنانے سے اجتناب ضروری ہے۔

سنن الترمذي ت شاكر (5 / 105):
"عن ابن عباس، قال: «لعن  رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهات بالرجال من النساء والمتشبهين بالنساء من الرجال» : «هذا حديث حسن صحيح»".

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (12 / 127):
"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه لعن المتشبِّهات من النساء بالرجال) قال ابن رسلان: وهذا الحديث له سبب، وهو ما رواه الطبراني : "أن امرأة مرَّت على رسول الله صلى الله عليه وسلم متقلدةً قوسًا، فقال: لعن الله المتشبهات" الحديث.
(والمتشبهين من الرجال بالنساء) بأن يلبس لِبسة النساء ويتزيَّا بزيهن، قال النووي في "الروضة" : والصواب: أن التشبه بالرجال للنساء وعكسه حرام.
4098 - (حدثنا زهير بن حرب، نا أبو عامر) عبد الملك بن عمرو، (عن سليمان بن بلال، عن سهيل، عن أبيه) أبي صالح، (عن أبي هريرة) - رضي الله عنه - (قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل يلبس لبسة المرأة، والمرأة تلبس لبسة الرجل).
4099 - (حدثنا محمد بن سليمان لوين) مصغرًا (وبعضه) أي بعض الحديث (قرأت عليه، عن سفيان، عن ابن جريج، عن ابن أبي مليكة قال: قيل لعائشة) - رضي الله عنها -: (إن امرأة تلبس النعل) الذي يلبسه الرجال (فقالت: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجلة) بضم الجيم، وقال المنذري: بكسر الجيم (من النساء) وهي المترجلة، يقال: امرأة رجلة إذا تشبهت بالرجل في الزي،فأما في العلم والرأي فمحمود، ومنه أن عائشة كانت رجلة الرأي". 
 فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104201027
تاریخ اجراء :27-12-2019