ملازمین کو مغرب کی نماز کے لیے آخری وقت تک تاخیر کرنا جائز نہیں

سوال کا متن:

 فی الحال میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں، وہ ہمیں چائے کے وقفے کے وقت تک مغرب کی نماز پڑھنے نہیں دیتے جو 7:45 ہے۔ ہم اپنے چائے کے وقفے یا رات کے کھانے کے وقفے میں نماز پڑھتے ہیں، انہوں نے مجھ سے ایسا فتوی لینے کو کہا جس میں 7:45 کے بعد مغرب کی نماز پڑھ سکنے کی اجازت ہو؟

میں نے انہیں بتایا کہ آسمان میں روشنی نہیں ہے؛ لہذا اسے پڑھ نہیں سکتا اور اس کے علاوہ عشاء کا وقت 8:05 کے لگ بھگ شروع ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا مغرب کا وقت عشاء کے وقت تک ہے۔

میں نے ایک مفتی صاحب کو یہ کہتے سنا ہے کہ ایک بار جب آسمان سے روشنی ختم ہوجائے تو آپ مغرب نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ براہِ کرم اس کے ذریعے میری رہنمائی کریں!

جواب کا متن:

1۔ واضح رہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز کی ادائیگی میں  جلدی  کرنا افضل ہے، اور کسی شرعی عذر کے  بغیرادائیگی میں  اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے نکل آئیں  مکروہِ تحریمی   ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ادارے کے ذم داران پر شرعاً لازم ہے کہ وہ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی تمام ملازمین  کے لیے مغرب کی نماز با جماعت ادا کروانے کا اہتمام کریں،  یہی ان کی تجارت میں برکت کا باعث ہوگا،  نیز نماز میں تاخیر کروانا ان کے لیے جائز نہ ہوگا، 7:45 تک تاخیر کروانے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے، اگر پھر بھی ذمہ داران مغرب کی ادائیگی کا موقع اول وقت میں فراہم  نہیں کرتے تو ایسی صورت میں ملازمین کو چاہیے کہ وہ انہیں  وقت پر نماز کی ادائیگی کروانے پر مجبور کریں، اگر پھر بھی  راضی نہ ہوں تو  ملازمت ترک کرکے دوسری جگہ ملازمت اختیار کرلیں۔

2۔ مغرب کا وقت سورج غروب ہونے کے متصل بعد سے شروع ہوکر عشاء کا وقت داخل ہونے سے پہلے تک رہتا ہے، اور عشاء کا وقت شفقِ ابیض کے بعد داخل ہوتاہے، یعنی سورج غروب ہونے کے بعد آسمان پر پہلے کچھ سرخی ظاہر ہوتی ہے، اس کے بعد کسی درجے روشنی ظاہر ہوتی ہے، اس روشنی (سفیدی) کو شفقِ ابیض کہتے ہیں، اس کے بعد پھر تاریکی ہوجاتی ہے، اور فوراً ہی عشاء کا وقت شروع ہوجاتاہے،سورج غروب ہونے سے لے کر شفقِ ابیض کے غائب ہونے تک کا وقت معتدل علاقوں میں ایک گھنٹہ بیس منٹ سے لے کر ایک گھنٹہ سینتیس منٹ ہوتاہے۔ اور یہ مکمل وقت مغرب کی نماز کا وقت ہے،  تاہم  کسی عذر شرعی کے بغیر ادائیگی میں اتنی  تاخیر کرنا کہ ستارے آسمان پر ظاہر ہوجائیں (یعنی مغرب کے آخری وقت میں نماز ادا کرنا) مکروہِ تحریمی ہے۔ البتہ اگر عذر ہو تو اس دوران مغرب کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ بہرصورت شفقِ ابیض کے غائب ہونے سے پہلے اگر مغرب کی نماز پڑھی جائے تو وہ ادا کہلائے گی، اور شفقِ ابیض کے بعد پڑھی جانے والی مغرب کی نماز قضا کہلائے گی، اور کسی شرعی عذر کے بغیر نماز کو قضا کردینا گناہِ کبیرہ ہے۔

المبسوط للسرخسیمیں ہے:

قَالَ (وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مِنْ حِينِ تَغْرُبُ الشَّمْسُ إلَى أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ عِنْدَنَا) وَقَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: لَيْسَ لِلْمَغْرِبِ إلَّا وَقْتٌ وَاحِدٌ مُقَدَّرٌ بِفِعْلِهِ فَإِذَا مَضَى بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ مِقْدَارُ مَا يُصَلَّى فِيهِ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ خَرَجَ وَقْتُ الْمَغْرِبِ لِحَدِيثِ إمَامَةِ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - «فَإِنَّهُ صَلَّى الْمَغْرِبَ فِي الْيَوْمَيْنِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ». (وَلَنَا) حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغِيبُ الشَّمْسُ وَآخِرَهُ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ، وَتَأْوِيلُ حَدِيثِ إمَامَةِ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ- أَنَّهُ أَرَادَ بَيَانَ وَقْتِ اسْتِحْبَابِ الْأَدَاءِ وَبِهِ نَقُولُ أَنَّهُ يُكْرَهُ تَأْخِيرُ الْمَغْرِبِ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إلَّا بِقَدْرِ مَا يَسْتَبْرِئُ فِيهِ الْغُرُوبَ رَوَاهُ الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى لِقَوْلِهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْمَغْرِبَ وَأَخَّرُوا الْعِشَاءَ» وَأَخَّرَ ابْنُ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا - أَدَاءَ الْمَغْرِبِ يَوْمًا حَتَّى بَدَا نَجْمٌ فَأَعْتَقَ رَقَبَةً، وَعُمَرُ -رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - رَأَى نَجْمَيْنِ طَالِعَيْنِ قَبْلَ أَدَائِهِ فَأَعْتَقَ رَقَبَتَيْنِ فَهَذَا بَيَانُ كَرَاهِيَةِ التَّأْخِيرِ فَأَمَّا وَقْتُ الْإِدْرَاكِ يَمْتَدُّ إلَى غَيْبُوبَةِ الشَّفَقِ وَالشَّفَقُ الْبَيَاضُ الَّذِي بَعْدَ الْحُمْرَةِ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - وَهُوَ قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ وَعَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا - وَإِحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا - وَفِي قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ وَالشَّافِعِيِّ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى الْحُمْرَةُ الَّتِي قَبْلَ الْبَيَاضِ وَهُوَ قَوْلُ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ - وَإِحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا - وَهَكَذَا رَوَى أَسَدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -.

وَوَجْهُ هَذَا أَنَّ الطَّوَالِعَ ثَلَاثَةٌ وَالْغَوَارِبَ ثَلَاثَةٌ ثُمَّ الْمُعْتَبَرُ لِدُخُولِ الْوَقْتِ الْوَسَطُ مِنْ الطَّوَالِعِ وَهُوَ الْفَجْرُ الثَّانِي فَكَذَلِكَ فِي الْغَوَارِبِ الْمُعْتَبَرُ لِدُخُولِ الْوَقْتِ الْوَسَطُ وَهُوَ الْحُمْرَةُ فَبِذَهَابِهَا يَدْخُلُ وَقْتُ الْعِشَاءِ، وَهَذَا لِأَنَّ فِي اعْتِبَارِ الْبَيَاضِ مَعْنَى الْحَرَجِ فَإِنَّهُ لَا يَذْهَبُ إلَّا قَرِيبًا مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ (وَقَالَ) الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ رَاعَيْت الْبَيَاضَ بِمَكَّةَ فَمَا ذَهَبَ إلَّا بَعْدَ نِصْفِ اللَّيْلِ، وَقِيلَ: لَا يَذْهَبُ الْبَيَاضُ فِي لَيَالِي الصَّيْفِ أَصْلًا بَلْ يَتَفَرَّقُ فِي الْأُفُقِ ثُمَّ يَجْتَمِعُ عِنْدَ الصُّبْحِ فَلِدَفْعِ الْحَرَجِ جَعَلْنَا الشَّفَقَ الْحُمْرَةَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - قَالَ: الْحُمْرَةُ أَثَرُ الشَّمْسِ وَالْبَيَاضُ أَثَرُ النَّهَارِ فَمَا لَمْ يَذْهَبْ كُلُّ ذَلِكَ لَا يَصِيرُ إلَى اللَّيْلِ مُطْلَقًا وَصَلَاةُ الْعِشَاءِ صَلَاةُ اللَّيْلِ كَيْفَ وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ «وَقْتُ الْعِشَاءِ إذَا مَلَأَ الظَّلَامُ الظِّرَابَ» وَفِي رِوَايَةٍ «إذَا ادْلَهَمَّ اللَّيْلُ» أَيْ اسْتَوَى الْأُفُقُ فِي الظَّلَامِ وَذَلِكَ لَا يَكُونُ إلَّا بَعْدَ ذَهَابِ الْبَيَاضِ فَبِذَهَابِهِ يَخْرُجُ وَقْتُ الْمَغْرِبِ وَيَدْخُلُ وَقْتُ الْعِشَاءِ.

(كتاب الصلاة، بَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ،١ / ١٤٤ - ١٤٥، ط: دار المعرفة - بيروت)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

(وَ) يُسْتَحَبُّ تَعْجِيلُ (الْمَغْرِبِ) فِي الْفُصُولِ كُلِّهَا لِقَوْلِهِ  عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «بَادِرُوا بِالْمَغْرِبِ قَبْلَ اشْتِبَاكِ النُّجُومِ» أَيْ كَثْرَتِهَا.

(كتاب الصلاة، ١ / ٧٢، ط: دار إحياء التراث العربي)

مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاحمیں ہے:

"و" يستحب "تعجيل" صلاة "المغرب" صيفا وشتاء ولا يفصل بين الأذان والإقامة فيه إلا بقدر ثلاث آيات أو جلسة خفيفة لصلاة جبريل عليه السلام بالنبي صلى الله عليه وسلم بأول الوقت في اليومين وقال عليه الصلاة والسلام: "إن أمتي لن يزالوا بخير ما لم يؤخروا المغرب إلى اشتباك النجوم مضاهاة لليهود " فكان تأخيرها مكروها "إلا في يوم غيم" وإلا من عذر سفر أو مرض وحضور مائدة والتأخير قليلا لا يكره وتقدم المغرب ثم الجنازة ثم سنة المغرب وإنما يستحب في وقت الغيم عدم تعجليها لخشية وقوعها قبل الغروب لشدة الالتباس "فتؤخر فيه" حتى يتيقن الغروب.

(كتاب الصلاة، احكام الصلاة، ص:٧٥، ط: المكتبة العصرية)

 فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144201200668
تاریخ اجراء :02-09-2020