افطار کے وقت کی مسنون دعا

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:

(1)روزے کی مشہور نیت "بصوم غد نویت من شهر رمضان" کا کسی صحیح یا ضعیف روایت میں کوئی ثبوت ملتا ہے؟ اگر نہیں، تو کیا اردو میں نیت کر سکتے ہیں؟ اور دلجمعی کے لیے الفاظ بھی بتائیں!

(2) افطار کی دعا کے کتنے الفاظ کا ثبوت حدیث سے ہے؟ اگر جواب "اللهم لك صمت وعلی رزقك أفطرت" ہے، تو سوال یہ ہے کہ کئی معتبر مدارس سے شائع ہونے والی جنتری پر" وبك آمنت وعلیك توکلت"  کا اضافہ کیوں ہوتا ہے؟ اور لفظ "إني"  کی بھی وضاحت فرمائیں کہ یہ دعا کا حصہ ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

1- نیت در حقیقت دل کے ارادہ کا نام ہے، البتہ زبان سے نیت کا اظہار مستحب ہے، تاہم رمضان کے روزے کی نیت کے حوالے سے مخصوص الفاظ احادیث میں منقول نہیں، مستحب کی ادائیگی کے لیے صرف زبان سے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ آج میرا روزہ ہے، نیز  سحری کھانا ہی روزے کی نیت و ارادہ ہے ۔سوال میں ذکر کردہ الفاظ احادیث سے ثابت نہیں، اگر کسی عالم نے کہیں یہ الفاظ لکھے ہوں  تو  انہوں نے ان الفاظ کو مسنون یا حدیث سے ثابت نہیں کہا ہوگا، بلکہ عوام کے لیے عربی میں نیت کے الفاظ بطورِ مثال لکھ دیے ہوں گے، الغرض یہ الفاظ نیت میں نہ ضروری ہیں، نہ ہی سنت سے ثابت ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وَشَرْطُ) صِحَّةِ الْأَدَاءِ النِّيَّةُ وَالطَّهَارَةُ عَنْ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ كَذَا فِي الْكَافِي وَالنِّهَايَةِ. وَالنِّيَّةُ مَعْرِفَتُهُ بِقَلْبِهِ أَنْ يَصُومَ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ، وَمُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. وَالسُّنَّةُ أَنْ يَتَلَفَّظَ بِهَا كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ. ثُمَّ عِنْدَنَا لَا بُدَّ مِنْ النِّيَّةِ لِكُلِّ يَوْمٍ فِي رَمَضَانَ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَالتَّسَحُّرُ فِي رَمَضَانَ نِيَّةٌ ذَكَرَهُ نَجْمُ الدِّينِ النَّسَفِيُّ". ( كِتَابُ الصَّوْمِ وَفِيهِ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي تَعْرِيفِهِ وَتَقْسِيمِهِ وَسَبَبِهِ وَوَقْتِهِ وَشَرْطِهِ، ١/ ١٩٥)

2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت کی دو دعائیں احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں:

(ا) ’’ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘. [سنن أبي داؤد، 2/278،بیروت]

ترجمہ:پیاس چلی گئی اور رگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔

 

(۲) ’’اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘. [مشکاة، ص:175،کتاب الصوم، ط:قدیمي کراچي- سنن أبي داؤد،  : 2358 ]

ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اورتیرے ہی رزق سے افطارکیا۔
احادیث میں ثابت شدہ الفاظ یہی ہیں، اگر کسی جگہ سے  اس کے برخلاف  شائع ہوا ہو اور انہوں نے اسے مسنون قرار دیا ہو تو ان کو اس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔ اور اگر صرف دعا کے الفاظ لکھے ہوں، حوالہ نہ دیا ہو  اور اسے مسنون دعا نہ لکھا ہو تو اس کی گنجائش ہوگی۔ اور اگر اضافی الفاظ لکھ کر حوالہ بھی دیا ہو تو ان سے اس حوالے کے بارے میں تحقیق کرلی جائے، یا عبارت باحوالہ لکھ کر سوال ارسال کردیجیے، ان شاء اللہ تحقیق کرکے جواب دے دیا جائے گا۔

اور اگر کوئی شخص دوسری دعا اضافے کے ساتھ یوں پڑھتاہے: ’’اَللَّهُمَّ إِنِّيْ لَكَ صُمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَ عَلَیْكَ تَوَکَّلْتُ، وَ عَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘. لیکن اسے سنت نہیں سمجھتا تو  اس کی گنجائش ہوگی، لیکن ثابت شدہ الفاظ کا معمول رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109201339
تاریخ اجراء :06-05-2020