نماز تراویح میں سجدہ تلاوت کرنا بھول جانا

سوال کا متن:

اگر نماز تراویح میں سجدہ تلاوت کرنا بھول جائیں تو اس کا کیا حکم اور حل ہوگا ؟

جواب کا متن:

بصورتِ مسئولہ اگر آیتِ سجدہ کے بعد مزید تین آیات پڑھنے سے پہلے امام نے رکوع کرلیا اور رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت نہیں کی تو اسی رکعت کے نماز والے سجدے میں امام اور مقتدیوں سب کا سجدۂ تلاوت ادا ہوگیا، اور اگر آیتِ سجدہ کے بعد مزید تین آیات پڑھنے کے بعد رکوع کیا تو  جس رکعت میں آیتِ سجدہ پڑھی اس رکعت میں سجدہ تلاوت کرنا بھول جائے تو سلام پھیرنے تک جب یاد آئے سجدہ تلاوت کرلے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے، لیکن اگر دوسری رکعت میں سجدۂ تلاوت کیا اور آخر میں سجدہ سہو نہیں کیا اور نماز کا وقت باقی ہے تو ان دو رکعتوں کا اعادہ کرلیا جائے اور اگر وقت نکل چکا ہو تو اعادہ واجب نہیں ہے۔ اور اگر نماز میں بالکل بھی سجدۂ تلاوت نہ کیا اور سلام پھیرنے کے بعد نماز کے منافی کام (مثلاً بات چیت کرنا، کھانا پینا، سینہ قبلے سے پھیرلینا) کرلیا تو اس کے بعد چھوٹے ہوئے سجدۂ تلاوت کی تلافی کی صورت نہیں ہے، اب نماز اور تلاوت کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ خطا پر استغفار کرنا چاہیے۔

الفتاوى الهندية - (4 / 178):
"الْمُصَلِّي إذَا نَسِيَ سَجْدَةَ التِّلَاوَةِ فِي مَوْضِعِهَا ثُمَّ ذَكَرَهَا فِي الرُّكُوعِ أَوْ السُّجُودِ أَوْ فِي الْقُعُودِ فَإِنَّهُ يَخِرُّ لَهَا سَاجِدًا ثُمَّ يَعُودُ إلَى مَا كَانَ فِيهِ وَيُعِيدُهُ اسْتِحْسَانًا، وَإِنْ لَمْ يُعِدْ جَازَتْ صَلَاتُهُ ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ فِي فَصْلِ السَّهْوِ".

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (2 / 110):
"قوله :( ويأثم بتأخيرها الخ ) لأنها وجبت بما هو من أفعال الصلاة وهو القراءة وصارت من أجزائها فوجب أداؤها مضيقاً كما في البدائع، ولذا كان المختار وجوب سجود السهو لو تذكرها بعد محلها كما قدمناه في بابه عند "قوله: بترك واجب" فصارت كما لو أخر السجدة الصلبية عن محلها فإنها تكون قضاءً". 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 99):
"وَظَاهِرُ كَلَامِهِمْ أَنَّهُ إذَا لم يَسْجُدْ فإنه يَأْثَمُ بِتَرْكِ الْوَاجِبِ وَلِتَرْكِ سُجُودِ السَّهْوِ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ الْوُجُوبَ مُقَيَّدٌ بِمَا إذَا كان الْوَقْتُ صَالِحًا حتى أن من عليه السَّهْوُ في صَلَاةِ الصُّبْحِ إذَا لم يَسْجُدْ حتى طَلَعَتْ الشَّمْسُ بَعْدَ السَّلَامِ الْأَوَّلِ سَقَطَ عنه السُّجُودُ". فقط والله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109200923
تاریخ اجراء :02-05-2020