جنابت کی حالت میں کھانا پینا، بچے کو دودھ پلانا

سوال کا متن:

کیا ازدواجی تعلق قائم کرنے کے فوراً بعد غسل کرنا فرض ہے یا اگلی نماز سے پہلے تک اسےمؤخر کرنے کی گنجائش ہے؟

کیا حالتِ جنابت میں کھانے پینے کی اجازت ہے؟

کیا حالتِ جنابت میں ماں اپنے بچے کو دوھ پلا سکتی ہے؟

جواب کا متن:

ہم بستری کے بعد افضل یہی ہے کہ  آدمی جلدی غسل کر کے پاک صاف ہوجائے، لیکن اگر نماز کے وقت تک غسل کو مؤخر کردے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ فجر تک غسل مؤخر کرنے کی صورت میں اگرہم بستری کے بعد سونا ہوتو بہتر یہ ہے کہ آدمی  استنجا اوروضو کرلے پھر سوجائے، اور پھر  بیدار ہوکر غسل کرلے۔چنانچہ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے:

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت  لاحق ہوتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کر کے عضو کو دھو کر سو جایا کرو‘‘۔

مظاہرحق میں ہے:

" یہ وضو کرنا جنبی کے سونے کے لیے طہارت ہے، یعنی جنبی وضو کر کے سویا تو گویا وہ پاک سویا، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسے رات کو احتلام ہو جائے یا جماع سے فراغت ہو اور اس کے بعد سونے کا ارادہ یا بوجہ کسی ضرورت بے وقت غسلِ جنابت میں تاخیر کا خیال ہو تو ایسی شکل میں جنبی کا وضو کر لینا سنت ہے۔ اتنی بات اور سمجھ  لیجیے  کہ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ مذکورہ میں وضو کیا جائے اس کے بعد عضوِ تناسل کو دھویا جائے، حال آں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ پہلے عضوِ تناسل کو دھونا چاہیے، اس کے بعد وضو کرنا چاہیے، اس شکل میں حدیث کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں وضو کرنا اس لیے مقدم کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کا احترام اور اس کی تعظیم کا اظہار پیش نظر تھا"۔

2 : حالتِ جنابت میں کھا نے اور پینے ک اجازت ہے، تاہم بہتر ہے کہ ہاتھ دھو کر اور کلی کر کے کھایا پیا جائے۔

3 : بہتر ہے کہ ماں غسل کرنے کے بعد بچے کو دودھ پلائے، تاہم ضرورت ہو تو حالتِ جنابت میں ماں اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 16):
"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط".

الفتاوى الهندية (1 / 16):
"ولا بأس للجنب أن ينام ويعاود أهله قبل أن يتوضأ وإن توضأ فحسن وإن أراد أن يأكل أو يشرب فينبغي أن يتمضمض ويغسل يديه". فقط و الله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144110200417
تاریخ اجراء :30-05-2020