رکشہ کے مالک کو زکاۃ دینا

سوال کا متن:

جس شخص کے پاس رکشہ ہو کمائی کرنے کے لیے تو  کیا اس کو ہم زکوۃ دے سکتے ہیں؟ اور زکوۃ کن لوگوں کو دینا درست ہے اور کن کو نہیں؟

جواب کا متن:

(1) صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  رقم نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ ہاشمی (سید/عباسی) ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

روزگار کا رکشہ ضرورت اصلیہ میں داخل ہے، یہ نصاب میں شامل نہیں ہوگا، اس کے علاوہ اگر مذکورہ شخص پاس مذکورہ تفصیل کے مطابق نصاب کے بقدر رقم نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

(2)   زکاۃ  کے مصارف سات ہیں:  فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

1۔۔ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

2۔ مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

3۔  عامل وہ ہے جسے مسلمان حکم ران نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

4۔ رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔

5۔ غارم سے مراد مدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

6۔ فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو  زکاۃ دے سکتے ہیں۔

7 ۔ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر سفر کے دوران مال ختم ہو جائے اور گھر سے رقم منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے، اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144109201638
تاریخ اجراء :09-05-2020