’’اگر تم نے دوبارہ قرآن پاک کی تلاوت نہ کی اور مجھے کوئی شکایت مل گئی تو مجھے شوہر نہ کہنا اور میں تمہارا شوہر نہیں رہوں گا‘‘ کہنے کا حکم

سوال کا متن:

میری بیوی کے ساتھ فون پے بات ہو رہی تھی۔ قرآن پاک کی تلاوت نہ کرنے پر میں نے اس کو دھمکی دی کہ اگر تم نے دوبارہ قرآن پاک کی تلاوت نہ کی اور مجھے کوئی شکایت مل گئی تو مجھے شوہر نہ کہنا اور میں تمہارا شوہر نہیں رہوں گا۔تو کیا اس پر طلاق ہوگئی؟

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں شوہر کے اس جملہ ’’اگر تم نے دوبارہ قرآن پاک کی تلاوت نہ کی اور مجھے کوئی شکایت مل گئی تو مجھے شوہر نہ کہنا اور میں تمہارا شوہر نہیں رہوں گا‘‘ کا حکم یہ ہے کہ اگر  بیوی نے تلاوت کا ناغہ کیا اور اس کی شکایت شوہر تک پہنچ گئی اورشوہر نے یہ جملہ طلاق ہی کی نیت سے کہا ہو تو بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، دونوں کا نکاح ٹوٹ جائے گا، عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہوگی، البتہ اگر طلاقِ بائن کی صورت میں زوجین ساتھ رہنا چاہیں تو اس کے لیے باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نئے سرے سے نکاح کرنا پڑے گا، اس صورت میں بھی شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔ اور اگر اس جملے سے شوہر کی نیت طلاق کی نہ ہو تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن شوہر کا اس طرح کے جملے استعمال کرنا اچھی بات نہیں، بیوی کو پیار و محبت سے تلاوت اور دیگر نیک اعمال کی طرف راغب  کرنے کی کوشش کرے۔

الفتاوى الهندية (1 / 375):

"ولو قال لامرأته: لست لي بامرأة أو قال لها: ما أنا بزوجك أو سئل فقيل له: هل لك امرأة؟ فقال: لا، فإن قال: أردت به الكذب يصدق في الرضا والغضب جميعًا ولايقع الطلاق، وإن قال: نويت الطلاق يقع في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 349):

" وبفوت محل البر كإن كلمت فلانا أو دخلت هذه الدار فمات أو جعلت بستانا كما بسطناه فيما علقناه على الملتقى وستجيء مسألة الكوز بفرعها.

بخلاف ما إذا كان شرط الحنث أمرا عدميا، مثل: إن لم أكلم زيدا أو إن لم أدخل فإنها لا تبطل بفوت المحل بل يتحقق به الحنث لليأس من شرط البر وهذا إذا لم يكن شرط البر مستحيلا، وإلا فهو مسألة الكوز، وقد علمت ما فيها من التفصيل، وليس منها قوله لأصعدن السماء، فإن اليمين فيها منعقدة ويحنث عقبها لأن صعود السماء أمر ممكن  في نفسه، وقد وقع لبعض الأنبياء وللملائكة وغيرهم، ولكنه يحنث عقب اليمين أو في آخر الوقت في المؤقتة لتحقق اليأس عادة، وهذا بخلاف مسألة الكوز، فإن شرب ما ليس موجودا في الكوز أو ما أريق منه غير ممكن في نفسه ولا في العادة فلذا تبطل اليمين، ولا يحنث إلا إذا صب منه وكانت اليمين مطلقة كما سيأتي تحقيقه في الأيمان إن شاء الله تعالى، وانظر ما سنذكره آخر الباب."

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144202200689
تاریخ اجراء :03-10-2020