طلاق رجعی، بائن، مغلظہ کی تعریف، مثالوں کا بیان

سوال کا متن:

طلاق رجعی بائن اور مغلظہ کی صورتیں (مثالیں)کیا کیا ہیں؟

جواب کا متن:

1: رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں دوران عدت رجوع ممکن ہوتا ہے، طلاق رجعی کی صورت اور مثال یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق کےصریح الفا ظ سےطلاق دے، مثلا کہے کہ "تجھے طلاق ہے" یا اسی کے ہم معنی الفاظ میں سے کوئی لفظ  کہے یعنی تجھے چھوڑدیا،

2: بائن طلاق  وہ ہوتی ہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اوررجوع ممکن نہیں ہوتی البتہ تجدید نکاح جائز ہوتا ہے،طلاق بائن کی صورت اور مثال یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی  کو بینونت کے الفاظ سے طلاق دے مثلا کہے کہ تو بائن ہے،یا الفاظ کنائی سے طلاق دےیا ایسےالفاظ سے طلاق دے جس میں شدت کا معنی ہومثلاکہے کہ تجھے سخت طلاق ہو ،لمبی چوڑی طلاق ہو،نیز بسااوقات ایک لفظ طلاق رجعی کا ہوتا ہے، مگرمخصوص احوال کی وجہ سے وہ بھی بائن بن جاتا ہے، مثلاً غیر مدخولہ کو اگر طلاق رجعی بھی دی جائے تو وہ بائن ہوتی ہے،اسی طریقے سے اگر ایک طلاق رجعی دی جائے اور پھر عدت کے دوران رجوع نہ کی جائے تو وہ طلاق رجعی بائن بن جاتاہے اسی طرح اگر بائن کے بعد رجعی دی جائے تو وہ بھی بائن ہوتی ہے۔

3: جب طلاقوں کا عدد تین تک پہنچ جائے تو اسے طلاق مغلظہ کہتے ہٰیں ۔مثلا  بیوی کو تین طلاقیں الگ الگ دیدی،یا ایک ساتھ دیدی،نیز ایک ساتھ تین طلاقیں دینے میں اگرچہ گناہ ہے تاہم اس طرح طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائےگی،

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز(كتاب الطلاق، ج:1، ص:354، ط:رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

وإذا قال رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت،(كتاب الطلاق)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة 

ولو قال أنت طالق أقبح الطلاق أو أفحشه أو أخبثه أو أسوأه أو أغلظه أو أشره أو أطوله أو أكبره أو أعرضه أو أعظمه ولم ينو شيئا أو نوى واحدة أو ثنتين في غير الأمة كانت واحدة بائنة

والطلاق البائن يلحق الطلاق الصريح بأن قال لها أنت طالق ثم قال لها أنت بائن تقع طلقة أخرى ،(كتاب الطلاق، ج:1، ص:372/73/77، ط:رشيديه)

ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية) فقط والله أعلم 

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144201201176
تاریخ اجراء :12-09-2020