کسی کو قرض دینا

سوال کا متن:

کیا کسی کو قرض دینے سے رزق میں برکت ہوتی ہے؟

جواب کا متن:

حاجت مند اور ضرورت مند کو قرض دینا اس کی مدد ہے اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اجر و ثواب صدقہ سے بھی زیادہ ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں قرض کی صورت میں بھی کسی کے ساتھ تعاون کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن البراء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من منح منحة لبن أو ورق أو هدى زقاقًا كان له مثل عتق رقبة». رواه الترمذي

 

(مشكاة المصابيح، كتاب الزكاة، باب فضل الصدقة، الفصل الثاني، (ص:169) ط: قدیمی، کراچی)

 ترجمہ:’’حضرت براء ؓ  راوی ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دودھ کا جانور کسی کو عاریۃً دے یا چاندی (یعنی روپیہ وغیرہ) قرض دے یا کسی راستہ بھولے ہوئے اور نابینا کو کوچہ و راستہ میں راہ بتائے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کی مانند ثواب ہو گا۔ (ترمذی) ‘‘۔

ایک دوسری روایت میں ہے:

’’ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ، فَمَنْ أَخَّرَهُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ»‘‘. (رواه احمد)

ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کا کسی دوسرے بھائی پر کوئی حق (قرضہ وغیرہ) واجب الادا ہو اور وہ اس مقروض کو ادا کرنے کے لیے دیر تک مہلت دے دی تو اس کو ہر دن کے عوض صدقہ کا ثواب ملے گا۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 81):

"حدثنا محمد بن خلف العسقلاني حدثنا يعلى حدثنا سليمان بن يسير عن قيس بن رومي قال: كان سليمان بن أذنان يقرض علقمة ألف درهم إلى عطائه فلما خرج عطاؤه تقاضاها منه واشتد عليه فقضاه، فكأن علقمة غضب فمكث أشهرًا، ثم أتاه فقال: أقرضني ألف درهم إلى عطائي، قال: نعم و كرامة يا أم عتبة هلمي تلك الخريطة المختومة التي عندك فجاءت بها، فقال: أما والله إنها لدراهمك التي قضيتني ما حركت منها درهمًا واحدًا، قال: فللّٰه أبوك ما حملك على ما فعلت بي، قال: ما سمعت منك، قال: ما سمعت مني؟ قال: سمعتك تذكر «عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من مسلم يقرض مسلمًا قرضًا مرتين إلا كان كصدقتها مرةً، قال: كذلك أنبأني ابن مسعود»."

ترجمہ:حضرت قیس بن رومی کہتے ہیں کہ سلیمان بن اذنان نے حضرت علقمہ کو تنخواہ  ملنے تک کے لیے ہزار درہم قرض دیے تھے، جب ان کو تنخواہ ملی تو سلیمان نے ادائیگی کا مطالبہ کیا اور ان پر سختی کی تو علقمہ نے ادائیگی کر دی، لیکن یوں لگا کہ علقمہ ناراض ہوئے ہیں، پھر علقمہ کئی ماہ تک ٹھہرے، اس کے بعد سلیمان کے پاس (دوبارہ) گئے اور کہا کہ مجھے ہزار درہم تنخواہ  ملنے تک کے لیے قرض دیجیے، کہنے لگے: جی ہاں! بڑی خوشی سے! اے ام عتبہ وہ سر بمہر تھیلی جو تمہارے پاس ہے لاؤ! وہ لائیں تو کہا: سنیے اللہ کی قسم یہ وہی آپ والے درہم ہیں جو آپ نے ادا کیے تھے، میں نے ان میں سے ایک درہم بھی نہیں ہلایا۔ علقمہ نے کہا: اللہ ہی کے لیے تمہارے والد کی خوبی تم نے میرے ساتھ وہ سلوک کیوں کیا تھا؟ سلیمان نے کہا: اس حدیث کی وجہ سے جو میں نے آپ سے سنی، فرمایا: کون سی حدیث آپ نے مجھ سے سنی؟ کہا: میں نے آپ کو حضرت ابن مسعود  ؓ  روایت کرتے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بھی دوسرے مسلمان کو دوبار قرض دے تو اسے ایک مرتبہ اتنا مال صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ فرمایا: حضرت ابن مسعود نے یہ حدیث مجھے اسی طرح سنائی۔

فقط واللہ اعلم 

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144205200474
تاریخ اجراء :27-12-2020