روزہ کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے کا حکم

سوال کا متن:

روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری ہوجانے پر کیا فدیہ آئے گا؟

جواب کا متن:

روزہ کی حالت میں ہم بستری کرنا ناجائز اور حرام ہے، اگر رمضان میں روزہ کے دوران ہم بستری کی (یعنی مرد کی شرم گاہ بیوی کی شرم گاہ میں داخل ہوگئی) تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور  قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے، بیوی اگر راضی ہو تو میاں بیوی دونوں پر علیحدہ علیحدہ کفارہ لازم ہوگا، اور اگر شوہر نے بیوی کے منع کرنے کے باوجود  زبردستی ہم بستری کرلی تو  شوہر پر روزہ کی قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں، البتہ بیوی پر صرف روزہ کی قضا لازم ہوگی۔ 

روزہ کی قضا میں  روزہ کے بدلے ایک روزہ  رکھنا ہوگا، اور ایک روزہ کے کفارے  میں  ساٹھ  روزے مسلسل رکھنے واجب ہوں گے، اور جب تک روزے رکھنے کی طاقت ہے ،روزے ہی رکھنے ہوں گے ، البتہ اگر بیماری وغیرہ کسی شرعی عذر کی بنا پر واقعتًا روزے رکھنے پر قادر نہ ہو اور آئندہ بھی روزے پر قدرت کی توقع نہ ہو تو  ساٹھ مسکینوں کو  دو وقت کھانا کھلانا، یا ساٹھ مسکینوں کو صدقۃ الفطر  کے بقدر رقم ادا کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:409، ط: دار الفكر-بيروت):

’’(وإن جامع) المكلف آدمياً مشتهى (في رمضان أداءً) لما مر (أو جامع) أو توارت الحشفة (في أحد السبيلين) أنزل أو لا ۔۔۔ قضى) في الصور كلها (وكفر).‘‘

و فيه أيضا(ج:2، ص:401):

’’ (وإن أفطر خطأ) كأن تمضمض فسبقه الماء أو شرب نائما أو تسحر أو جامع على ظن عدم الفجر (أو) أوجر (مكرها) أو نائما وأما حديث " رفع الخطأ " فالمراد رفع الإثم وفي التحرير المؤاخذة بالخطأ جائزة عندنا خلافا للمعتزلة.

(قوله: أو أوجر مكرها) أي صب في حلقه شيء والإيجار غير قيد فلو أسقط قوله أوجر وأبقى قول المتن أو مكرها معطوفا على قوله خطأ لكان أولى ليشمل ما لو أكل أو شرب بنفسه مكرها فإنه يفسد صومه خلافا لزفر والشافعي، كما في البدائع وليشمل الإفطار بالإكراه على الجماع قال في الفتح: واعلم أن أبا حنيفة كان يقول أولا في المكره على الجماع عليه القضاء والكفارة؛ لأنه لا يكون إلا بانتشار الآلة وذلك أمارة الاختيار ثم رجع وقال: لا كفارة عليه وهو قولهما؛ لأن فساد الصوم يتحقق بالإيلاج وهو مكره فيه مع أنه ليس كل من انتشرت آلته يجامع. اهـ. أي مثل الصغير والنائم.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:205، ط: دار الفكر):

’’من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة.‘‘

فقط و الله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144209202098
تاریخ اجراء :08-05-2021