الزام تراشی کرنے والے شخص کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا حکم

سوال کا متن:

زید اور بکر کے آپس میں کچھ اختلافات ہیں،  جس کے پیشِ نظر زید کے حمایتی اکثر بکر کے خاندان کے بزرگوں اور خود بکر وغیرہ پر طرح طرح کے الزامات اور بہتان لگاتے ہیں ، حالیہ دنوں میں زید کی طرف کے کچھ لوگوں نے ایک بھری مجلس میں بکر کے خاندان کے لوگوں کی موجودگی میں اعلانیہ الزامات اور بہتان لگائے،  جس کو بکر کے بھائی/ بیٹے نے موبائل فون پر اس غرض سے ریکارڈ کیا کہ اس کی تصدیق بکر سے اور خاندان کے بڑوں سے کی جائے جن الزامات اور بہتان کا اکثر ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے، اور تاکہ کسی تہمت سے اپنا بچاؤ کیا جاسکے، واضح رہے کہ یہ کوئی رازدارانہ  خفیہ مجلس میں نہیں ہوا، بلکہ کھلے عام اور اونچی آواز میں اعلان کی طرح ہوا،  اب آیا اس کی ریکارڈنگ جو کی گئی ہے وہ شرعی اعتبار سے جائز ہے کہ نہیں؟

جواب کا متن:

کسی بھی شخص کے لیے کسی کی جاسوسی کرنے اور اس کی باتوں کو  اس کی اجازت کے بغیر   ریکارڈ  کرنے کی شرعاً اور اخلاقاً اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص  دورانِ گفتگو   کسی شخص کے مالی یا  جانی نقصان یا آبرو ریزی کے حوالے سے گفتگو کرے، جس کو کرنے کے بعد وہ اپنی باتوں سے بھی انکار کردیتا ہے تو ایسی صورت میں   ضرورت کی حد تک متعلقہ فرد  کی گفتگو ریکارڈ کرکے اپنی دفاع کے لیے اور متعلقہ شخص کو اپنے فعل سے باز رکھنے کے  لیے استعمال کی جاسکتی ہے، تاہم اس میں بھی دو باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

(1) صرف ان ہی لوگوں کو سنائے جنہیں سنانا ضروری ہو، عام تشہیر نہ کرے۔

(2) جس کی بات ریکارڈ ہو، اس کی  پردہ دری یا تذلیل مقصود نہ ہو۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المجالس بالأمانة إلا ثلاثة مجالس) أي: إحدى الثلاثة من المجالس، والمعنى ينبغي للمؤمن إذا رأى أهل مجلس على منكر أن لا يشيع ما رأى منهم إلا ثلاثة مجالس (سفك دم) : بالرفع بتقدير هي مجلس إراقة دم (حرام) ، بالجر صفة دم أي دم حرام سفكه أو دم محترم في الشرع (أو فرج حرام، أو اقتطاع مال بغير حق) . قيد للأخير فقط، ولعل العدول عن حرام هنا لأجل مفهومه من الحلال، فإن اقتطاع مال الناس ظلما حرام، سواء يكون المال حلالا أم حراما، فالجار متعلق بالاقتطاع كما لا يخفى. قال المظهر: كما إذا سمع من قال في مجلس: أريد قتل فلان أو الزنا بفلانة أو أخذ مال فلان، فإنه لا يجوز ستر ذلك حتى يكونوا على حذر منه." 

(كتاب الادب، باب ماينهى من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج:8، ص:3166، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم 

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144208200403
تاریخ اجراء :22-03-2021