تم آزاد ہو سے طلاق کا حکم

سوال کا متن:

میری اہلیہ نے میرے متعلق کہا  کہ میں نے اس کو یہ الفاظ کہے  کہ "آج سے میں تیرے ساتھ نہیں رہوں گا ،تم پکی آزاد ہو اب"حال آں کہ میں نے کہا تھا کہ "میں وہاں (میری ساس) کے ساتھ  نہیں رہوں گا،تم آزاد ہو"جب کہ میں نے ان الفاظ سے نہ طلاق کی نیت کی تھی اور نہ ہی میرے ذہن طلاق کا تصور تھا ۔

سائل کا کہنا ہے کہ میرا اپنا ذاتی گھر ہے، اس کے باوجود میری بیوی نے اپنی ماں (میری ساس) کے کہنے پر مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ میں اس  کی ماں (اپنی ساس) کے ساتھ   کرایہ کے گھر میں رہو ں اور اس کا کرایہ بھی میں ادا کروں ،چنانچہ اسی بات پرمیرا اپنی ساس کے ساتھ جھگڑا چل رہا تھا کہ اس دوران میں گھر سے باہر گیا اور جب واپس آیا تو گھر کا دروازہ بند تھا ،میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر کا دروازہ کھولو تو اس نے کہا کہ  چابی میری والدہ کے پاس ہے اور اس نے کہیں چھپادی ہے اور مجھے چابی نہیں دے رہی ،آپ ابھی جاکے کل آجاؤ اور پھر کل گھر کا کرایہ بھی دے دینا ،تو میں نے اس کو کہا کہ "اگر مجھے گھر کے اندر آنے دیتی ہے  تو صحیح ہے،اگر نہیں دیتی ہوتو پھر میں گھر کا کرایہ نہیں دوں گا،پھر آپ آزاد ہو ، آپ خود بندوبست کرو کرایہ وغیرہ کا"اور میرا اس جملہ سے یہ ارادہ تھا کہ کرایہ کے لیے آپ آزاد ہو ،جہاں سے  بھرناچاہو  بھرو میں نہیں بھروں گا۔

اب شریعت کی رو سے بتادیں کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟

جواب کا متن:

 صورتِ مسئولہ میں سائل نے  اپنی بیوی کو  یہ  الفاظ کہے کہ:  "اگر مجھے گھر کے اندر آنے دیتی ہو  تو صحیح ہے،اگر نہیں دیتی ہوتو پھر میں گھر کا کرایہ نہیں دوں گا،پھر آپ آزاد ہو ، آپ خود بندوبست کرو کرایہ وغیرہ کا"  اور سائل کی وضاحت کے مطابق "تم آزاد ہو"سے  بیوی کو طلاق دینا مقصود نہیں تھا، بلکہ کرایہ کے معاملے میں اسے ازخود بندوبست کرنے کا پابند بنانا تھا اور کلام کا سیاق وسباق بھی اس بات پر قرینہ ہے کہ سائل کا مقصود نکاح سے آزاد کرنا نہیں تھا تو  سائل کے اس  کہنے سے سائل  کی بیوی پر  کوئی  طلاق   واقع  نہیں ہوئی،لہذا سائل اور اس  کی بیوی کا نکاح بدستور برقرار ہے ،بحیثیت میاں بیوی ساتھ  رہ  سکتے  ہیں۔

جب کہ سائل کی بیوی کا مؤقف یہ ہے کہ  سائل نے یہ الفاظ کہے کہ "آج سے میں تیرے ساتھ نہیں رہوں گا ،تم پکی آزاد ہو اب" اگر حقیقت یہی ہے تو اس صورت میں سائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، نکاح ختم ہوچکا ،اب  ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا ۔

اگر میاں بیوی میں اختلاف برقرار ہے تو کسی  مستند عالم ،مفتی صاحب کو اپنےدرمیان حکم بناکر شرعی طریقہ سے فیصلہ کرالیں ۔

           الدر مع الرد میں ہے:

(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ... (واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئًا) ولو نوى به الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد؛ ولو مكرها صدق قضاء أيضا كما لو صرح بالوثاق أو القيد ... الخ

وفی الرد تحته:

"(قوله دين) أي تصح نيته فيما بينه وبين ربه تعالى لأنه نوى ما يحتمله لفظه فيفتيه المفتي بعدم الوقوع. أما القاضي فلا يصدقه ويقضي عليه بالوقوع لأنه خلاف الظاهر بلا قرينة (قوله: إن لم يقرنه بعدد) هذا الشرط ذكره في البحر وغيره فيما لو صرح بالوثاق أو القيد، بأن قال: أنت طالق ثلاثًا من هذا القيد فيقع قضاءً و ديانةً كما في البزازية، و علّله في المحيط بأنه لايتصور رفع القيد ثلاث مرات فانصرف إلى قيد النكاح كي لايلغو. اهـ.قال في النهر:و هذا التعليل يفيد اتحاد الحكم فيما لو قال مرتين اهـ ولذا أطلق الشارح العدد.و لايخفى أنه إذا انصرف إلى قيد النكاح بسبب العدد مع التصريح بالقيد فمع عدمه بالأولى (قوله: صدق قضاء أيضا) أي كما يصدق ديانة لوجود القرينة الدالة على عدم إرادة الإيقاع، و هي الإكراه ط."

(کتاب الطلاق،با ب صریح الطلاق،3/248۔251،ط:سعید)

               ہندیہ میں ہے:

"و لو قال لها: أنت طالق، و نوى به الطلاق عن وثاق لم يصدق قضاءً و يدين فيما بينه و بين الله تعالى. و المرأة كالقاضي لايحلّ لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها، و لو قال لها: أنت طالق عند وثاق لم يقع في القضاء شيء، و كذا لو قال: أنت طالق من هذا القيد."

(کتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الأول في الطلاق الصريح،1/354،ط:دارالفکر)

                        فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144303100342
تاریخ اجراء :16-10-2021