موذی جانور کو مارنا

سوال کا متن:

ایک ایسا جانور ( حلال یا حرام) جو لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہو چکا ہو چاہے وہ قربانی کا جانور ہی کیوں نہ ہو،  تلف کیا جاسکتا ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ  بلاوجہ   کسی  جانور کو  مارنا شرعًا  ممنوع ہے، لیکن اگر کوئی اس حد تک خطرناک ہو گیا ہو کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن گیا ہو تو ایسے جانور کو مارا جا سکتا ہے،  البتہ مارنے میں  یہ ملحوظ رہے کہ کسی ایسی چیز سے مارا جائے جس سے اس کی جان جلدی سے نکل جائے اس کو  زیادہ اذیت نہ ہو۔

پھر اگر وہ  حلال جانور  (مثلًا قربانی کا جانور) ہو تو اسے فورًا جان سے نہ مارا جائے، بلکہ کوشش کی جائے کہ کسی طرح وہ قابو میں آجائے، مثلًا: گولی مار کر زخمی کردیا جائے،  اور پھر اس پر قدرت حاصل ہوتے ہی اسے ذبح کردیا جائے، اگر گولی مارنے کے نتیجے میں  باقاعدہ ذبح کرنے سے پہلے  اس کی جان نکل جائے تو وہ حلال نہیں ہوگا، اور اگر اس کی جان نکلنے سے پہلے بسم اللہ  پڑھ کر دھاری دار آلے  (چھری وغیرہ ) سے ذبح کردیا گیا تو وہ حلال ہوگا۔  اسی طرح اگر گولی ایسی نوک دار اور دھاری دار ہو جیسے چاقو وغیرہ ہوتاہے  یا چھری یا چاقو یا تیر پھینک کر اس جانور کو مارا جائے اور دھاری دار گولی یا چاقو وغیرہ پھینکتے وقت بسم اللہ پڑھ کر یہ چیزیں ماری جائیں اور اس سے جانور زخمی ہوگیا، اور اس کے جسم سے خون بہہ گیا، اور پھر اس کے ذبح کرنے پر قدرت سے پہلے اس کی جان نکل گئی تو بھی حلال ہوگا، اور اگر اس طرح مارنے کے بعد زخمی حالت میں لوگ اس تک پہنچ جائیں اور اسے ذبح کرنے پر قدرت حاصل ہوجائے تو اس کے حلال ہونے کے لیے اُسے باقاعدہ ذبح کرنا ضروری ہوگا۔

تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

قربانی کے جانور کو گولی مار کر گرانے کے بعد ذبح کرنے کا حکم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 752):

"و جاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحاً) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها.

(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج، زيلعي".

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144212201193
تاریخ اجراء :24-07-2021