رہائش کے ارادے سے خریدے گئے پلاٹ پر زکوۃ واجب نہیں ہے

سوال کا متن:

ناظم آباد میں میرا ایک مکان ہے ،جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں ،میں  نے نیا  ناظم آباد میں ایک پلاٹ خریدا ہےرہائش کی نیت(ارادے ) سے،کیونکہ پلاٹ کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے ،اس لیے پلاٹ خرید لیااور بعد میں اس کوبنا کر رہوں گا،میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ میں اکیلانیا پلاٹ خرید سکوں،اس لیے میں نے تین اورلوگوں کو اس میں شامل کرلیا اور ان کو کہا کہ جب میں اپنا پرانامکان بیچوں گا ،تو آپ کو پلاٹ کی  نئی قیمت کے حساب سے آپ کی رقم لوٹادوں گا۔

آپ مجھے یہ بتائیں کہ نئے پلاٹ پر میری جو رقم لگی ہوئی ہے ،اس پر زکوۃ نکالنی پڑے گی یا نہیں؟ 

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے مذکورہ پلاٹ  رہائش کےارادے سے خریدا ہے ،تو اس پلاٹ پر سائل کی جو رقم لگی ہوئی ہے ،اس کی زکوٰۃ سائل پر ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

باقی سائل نے مذکورہ پلاٹ کی خریداری میں جن تین اور لوگوں کو شامل کرکے ،ان کویہ کہا ہے کہ جب میں اپنا پرانا مکان بیچوں گا،تو آپ کو پلاٹ کی نئی قیمت کے حساب سے آپ کی رقم لوٹادوں گا،اگر یہ رقم بطور قرض لی ہے تو جتنی رقم لی ہے اتنی ہی رقم واپس کی جائے گی ،خواہ مکان فروختگی کے وقت پلاٹ کی قیمت ،قیمت خرید سے کم ہو یا زیادہ ،لیکن اگر ان لوگون کو باقاعدہ پلاٹ میں شریک کیا ہے ،تو بعد میں ان کی مرضی ہوگی کہ وہ   پلاٹ میں اپنا حصہ   سائل کو فروخت کرتے ہیں ،یا نہیں کرتے اور کرتے ہیں تو کس قیمت میں کرتے ہیں۔ 

رقم بطور قرض ہو یا بطور شراکت  ان شرکاء پر  بہر صورت  زکوۃ لازم ہوگی،  قرض کی صورت میں دی ہوئی رقم پر زکوۃ  دیں گے اور شراکت  کی صورت میں  چوں کہ ان کا ارادہ فروخت کا ہے تو پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو پر زکوۃ ادا کریں گے۔ (البتہ اگر  ان پر اتنا قرض  ہو کہ اسے منہا کرنے کے بعد وہ صاحبِ نصاب نہ رہیں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا فيما تقدم بخلاف الذهب والفضة فإنه لا يحتاج فيهما إلى نية التجارة؛ لأنها معدة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى إعداد العبد ويوجد الإعداد منه دلالة على ما مر."

(کتاب الزکوة/ج:2/ص:21/ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"و شرط مقارنتها لعقد التجارة، و هو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض. و لو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شيئًا للقنية ناويًا أنه إن وجد ربحًا باعه لا زكاة عليه."

(کتاب الزکوة،/ج:2/ص:73،74/ط:سیعد)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144303100555
تاریخ اجراء :23-10-2021