ایک طلاق رجعی

سوال کا متن:

میں تین سال سے اپنے شوہر سے الگ ہوں ،کوئی تعلق قائم نہیں ہوا اور میں والدہ کے گھر رہتی ہوں ،چودہ ماہ پہلے میرے شوہرنے مجھے ان الفاظ سے ایک طلاق دی تھی کہ "میں تمہیں طلاق  دیتا ہوں "اور اس پر سولہ سال کے بیٹے کو گواہ بھی بنایا تھا اور طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوا ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی تھی یا نہیں؟ اور مجھ پر عدت ہے یا نہیں؟  کیونکہ میرے گھر والے کہتے ہیں کہ ایک طلاق سے طلاق نہیں  ہوتی، اس لیے میں نے خلع کی درخواست بھی دی ہےتو کیا مجھے خلع لینے کی ضرورت ہے؟

جواب کا متن:

صورتِ  مسئولہ میں  جب سائلہ کو اس کے شوہر نے  چودہ مہینے پہلے ایک طلاق دی تھی  تو اس سے سائلہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی  ،شوہر کو اپنی بیوی(سائلہ) کی عدت میں رجوع کا حق حاصل تھا   لیکن جب شوہرنے  بیوی کی عدت (اگرحمل نہ ہوتوپوری تین ماہواریاں اوراگرحمل ہوتو  بچہ کی پیدائش تک ) کے  اندر رجوع نہیں کیا  تو عدت میں رجوع نہ ہونے کی وجہ سے نکاح  ختم ہوچکا ہے  ،بیوی شرعاً دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، البتہ اگر میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دونوں کی رضامندی سے  نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں  تجدید  نکاح ہوسکتاہےاور تجدید نکاح کی صورت میں سائلہ کے  شوہر کو آئندہ کےلئے  صرف دو طلاقوں  کا اختیار ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقًا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر. (واحدة رجعية)."

   (باب الصریح ج3،ص248ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و ينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."

(کتاب الطلاق ،باب الرجعۃ ج3 ص 409 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144303100323
تاریخ اجراء :16-10-2021