ناجائز كام میں ملوث اعزہ سے تعلق منقطع كرنا

سوال کا متن:

حضرات مفتیانِ کرام ایک اہم سوال یہ ہے کہ میری اپنی مامی کا ایک غیر مرد کے ساتھ غلط تعلق ہے اور میرے مامو یہ جاننے کے باوجود کہ میری بیوی حرام کاری کرتی ہے مامو کا کہنا ہے کہ میری بیوی نیک ہے لوگ جھوٹا الظام لگاتے ہیں میری بیوی پر ایک بات یہ ہے کہ میری شادی ہو نے والی ہے اور میرے ابوّ کا کہنا ہے کہ میں تمہارے مامو کو تمہار ی شادی میں نہیں بلاوں گا کیونکہ برائی کرنے والے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی ایک برائی ہے اور حدیث میں ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بالکل منع ہے اور میری امّی کا کہنا ہے کہ اگر آپ میرے بھا ئی سے بات نہیں کرتے ہیں تو یہ قطع رحمی ہے اب آپ ہی بتائیے کہ میرے ابّو کو کیا کرنا چاہئے میری شادی میں میرے مامو کو بلانا چاہئے یا نہیں ؟ برائے کرم جواب مرحمت فرمائیں ۔

جواب کا متن:

Fatwa: 858-794/B-8/1440

 شادی میں تمام اعزہ كو بلانا ضروری نہیں ہے؛ لہذا اگر آپ كے والد انھیں نہ بلائے تو اس میں كوئی حرج نہیں ہے‏، بالخصوص جب كہ یہاں نہ بلانے میں اپنے كو بدنامی وغیرہ سے بچانا بھی مقصود ہے۔ رہی بات چیت تو زجر وتوبیخ كے مقصد سے عارضی طور پر بند كرنے میں تو كوئی حرج نہیں ہے؛ لیكن بالكلیہ نہیں بند كرنی چاہیے؛ بلكہ بہ تقدیر صحتِ واقعہ اصلاحِ حال كی كوشش كرنی چاہیے ۔

ثم المراد حرمة الهجران إذا كان الباعث عليه وقوع تقصير في حقوق الصحبة والأخوة وآداب العشرة وذلك أيضا بين الأجانب وأما بين الأهل فيجوز إلى أكثر للتأديب فقد هجر رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - نساءه شهرا‏، وكذا إذا كان الباعث أمرا دينيا فليهجره حتى ينزع من فعله وعقده ذلك فقد أذن رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - في هجران الثلاثة الذين تخلفوا خمسين ليلة حتى صحت توبتهم عند الله، قالوا وإذا خاف من مكالمة أحد ومواصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل عليه مضرة في دنياه يجوز له مجانبته والحذر منه فرب هجر جميل خير من مخالطة مؤذية .[حاشية السندي على سنن ابن ماجه 1/ 23، رقم:46]

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :609854
تاریخ اجراء :27-Mar-2022