شادی بیاہ کی رسومات کی شرعی حیثیت

سوال کا متن:

آج کل شادی کے معاملہ میں بہت ساری بے جا رسموں کو ادا کیا جاتا ہے جیسے لڑکی کے ہاتھ میں پیسے دینا، منگنی کرنا، عیدین کے موقع پر عیدی کی خاص کقریب کرنا، دلھا کو جوتا لنگی کے نام پر رقم دینا، لڑکی کیلئے نکاح کا جوڑا دلھا کی طرف سے اور دلھا کا جوڑا دلھن کی طرف سے لانا. ان تمام رسومات کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ قرآن، حدیث اور صحابہ کرام کی زندگی سے نکاح کا خاص اور رسم و بدعات سے پاک طریقہ بھی درج فرمائے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:865-720/sn=9/1440
(الف )آپس میں ہدایا اور تحائف کا لین دین تو فی نفسہ برا نہیں ؛ بلکہ شرعا پسندیدہ عمل ہے؛ لیکن اس میں بے جا التزامات کہ عید کے موقع پر دینا ہے، اس نام سے دینا ہے، گنجائش نہ ہو پھر بھی دینا ہے اگر چہ اس کے لئے سود پر قرض یا کوئی ناجائز طریقہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے،فلاں فلاں چیزیں ہی دینی ہیں، یہ التزامات شرعا درست نہیں ہیں، ان سے احتراز ضروری ہے ، بغیر کسی التزام کے اگروقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو حسب وسعت ہدیہ دے دیا جائے اور مقصد آپس میں محبت کو بڑھانا ہو، رسم کی تکمیل نہ ہو کہ اگر نہیں دیں گے تو لوگ کیا کہیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ شرعا ایک پسندیدہ عمل ہے۔
(ب) منگنی اور بارات وغیرہ کی رسمیں بھی واجب الترک ہیں، شادی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب لڑکی یا لڑکا شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے والدین مناسب رشتہ تلاش کریں، رشتہ طے کرنے میں دینداری کو ترجیح دینا چاہئے نہ کہ مال کو، حدیث میں اس کی ترغیب آئی ہے،جب کسی جگہ رشتہ مناسب معلوم ہو تو لڑکے کی والدہ یا بہن وغیرہ ایک مرتبہ لڑکی کو دیکھ لے ؛ بلکہ لڑکا خود بھی ایک نظر( بلا کسی تقریب کے) دیکھ سکتا ہے، اس کے بعد دونوں خاندان کے ذمے داران فون پریا کسی جگہ بیٹھ کر اس کی تاریخ متعین کرلیں، اس کے لئے نہ تو کسی خاص انتظام کی ضرورت ہے اور نہ ہی دعوت وغیرہ کی، پھر متعینہ تاریخ میں لڑکا اپنے والد یا گھر کے ایک دوذمے دار افراد کے ساتھ لڑکی کے یہاں چلا جائے اور سب لوگ یعنی لڑکا مع رفقا اور لڑکی کا ولی یا وکیل جس کو لڑکی نے اجازتِ نکاح دی ہے)محلہ کی مسجد میں کوئی وقتیہ نماز ادا کریں ،نماز کے بعدیہ اعلان ہوجائے کہ ایک نکاح ہونا ہے،جن حضرات کو موقع ہوتھوڑی دیر بیٹھ جائیں، اس کے بعد مسجد کے امام صاحب یا کوئی متقی پرہیز گار شخص بہ اجازت ولی نکاح پڑھا دے، پھر حسبِ وسعت کوئی شیرینی مثلا چھوہارے یا مٹھائی وغیرہ حاضرین میں تقسیم کردی جائے، اس کے بعد لڑکی کو رخصت کراکر گھر لے آئے، دوسرے دن حسبِ وسعت ولیمہ مسنونہ کرلیا جائے، جس میں اقارب، پڑوسی اور کچھ غرباء ومساکین کو بلا کر کھانا کھلا دیا جائے۔ الغرض شادی بیاہ بالکل سادہ طریقے پرکرنا چاہئے، ایک حدیث میں ہے کہ سب سے با برکت نکاح وہ ہے جو خرچ کے اعتبار سے کم ہو۔حضرت اقدس تھانوی کی افادات کا مجموعہ بہ نام ”اسلامی شادی“اس موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے، اسے حاصل کرکے مطالعہ کرلیں، اسی طرح بہشتی زیور کا بھی، ان شاء اللہ بڑا فائدہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :170180
تاریخ اجراء :May 13, 2019