1. دار الافتاء دار العلوم دیوبند
  2. معاملات
  3. سود و انشورنس

سود پر مبنی لون لینے كا حكم

سوال

سود پر مبنی لون لینے كا حكم

جواب

Fatwa: 834-427/TB-Mulhaqa=8/1443

 سوال میں جو صورت ذكر كی گئی ہے‏، یہ سود پر مبنی لون كی شكل ہے‏،اس طرح كا لون لینا(خواہ اپنے اكاؤنٹ سے لیاجائے یا كسی او ركے اكاؤنٹ سے) شرعا جائز نہیں ہے‏، ؛ لہذا اپنے كاروبار كے لیے اس طرح كا لون نہ لیں‏، اگرچہ سود نسبتًا كم ہو‏، بغیر لون كے جس قدر كاروبار ہوسكے انجام دیں ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) [البقرة: 275 - 279] لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال:هم سواء.(صحيح مسلم 3/ 1219)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند


ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :610672
تاریخ اجراء :27-Mar-2022

فتوی پرنٹ