علاج میں غلطی ہوجانا

سوال کا متن:

میرا چھوٹا بھا ئی حکمت کے آخری سال میں تعلیم حاصل رہا ہے، ان   سے دوست وغیرہ علاج کا بولتے علاج کردیتے تھے۔ایک دوست کی ساسو ماں کی طبیعت خراب رھتی تھی۔پیٹ میں پانی پڑنے کا مسئلہ تھا۔دوست نے بھائی کو بولا کہ دیکھ لو بھائئی نے ایک بار منع کردیا مگر دوست نے 2 سے 3 بار کہا تو بھا ئی نے جا کر چیک کر لیا ۔میں خود بھی طبیب ہوں ۔بھا ئی اگر علاج سے پہلے الٹراساونڈ کروالیتے تو جگر کےسکڑنے یا پھیلنے کے مطابق علاج ٹھیک کر پاتے اس نے ڈاریکٹ علاج کر دیا ۔علاج میں گرم دوائیاں دینی تھی اس نے ٹھنڈی دوا ئیاں دیدی۔کچھ دن ٹھیک رہی 20 سے 25 دن اس کے بعد حالت بگڑ گئی اور ان کا انتقال ہوگیا۔اب بھا ئی ہر وقت روتا رہتاہے کہ سورہ نساء کی 93 آیت کا کسی نے بتایا کہ اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی ، انتقال ہو نے والی اماں کے شوہر سے میں نے ملاقات کی اور اسے بتایا کہ بھا ئی سے علاج میں غلطی ہ گئی اللہ کی رضا کی خاطر معاف کرد یں تاکہ بھا ئی کو سکون مل جاے انہوں نے معاف کردیا ۔حضرت یہ خلطی کی کوئی معافی ہے کیا ؟اللہ ایسے بندے کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔بھا ئی نے قسم کھ ئی ہے کہ دوبارہ جب تک تعلیم مکمل نہ ہوجائے اور تجربہ نا ہو جائے علاج   نہیں کروں گا مگر ہر وقت روتا رہتا ہے۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ توبہ ہوجائے گی اللہ کے ہاں۔ حضورﷺ ارشاد ہے علاج ناسیکھا خود ضامن ہے قتل خطاً میں آئے گا یا قتل عمد میں؟

جواب کا متن:

Fatwa: 1050-796/L=8/1443

مذكورہ بالا صورت میں آپ كے بھائی نے مریضہ كو جو دوائیاں دی تھیں اگر وہ دوائیاں اس كے علم وتجربہ كے مطابق مریضہ كے مناسب حال تھیں   اور دوائی دینے سے بھائی كی نیت ضرر رسانی كی نہیں تھی ، اور نہ ہی اس نے اپنے ہاتھ سے مریضہ كو دوا پلائی ہو نیز دوائی دینے كے بعد ۲۵؍دن تك مریضہ كی طبیعت بھی   ٹھیك رہی   ہے جیسا كہ سوال میں مصرح ہے تو صورت مسؤلہ میں آپ كے بھائی   پر كوئی مواخذہ نہ ہوگا، جہاں تك سورہ نسا كی آیت نمبر ۹۳ كا تعلق ہے تو وہ جان بوجھ كر قتل كرنے والے كے بارے میں ہے، لاعلمی میں قتل كا سبب بننے والا اس میں داخل نہیں ، اور قتلِ عمد كے بارے میں بھی راجح یہی ہے كہ اس كی توبہ قبول ہوجاتی ہے كما ہومذہب الجہمور؛ لہذا آپكے بھائی كو چاہیے كہ پریشان نہ ہو اور جب وہ اپنے اس عمل پر نادم ہے اور آپ نے مرحومہ كے اولیاء سے اپنے بھائی كے لیے معافی بھی مانگ لی تو اب زیادہ گھبرانے كی ضرورت نہیں۔

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تطبب ولم يعلم منه طب قبل ذلك فهو ضامن»[سنن النسائي 8/ 52]فصل القسم الثاني:مطب جاهل باشرت يده من يطبه فتلف به فهذا ان علم المجني عليه انه جاهل لا علم له واذن له في طبه لم يضمن ولا تخالف هذه الصورة ظاهر الحديث فان السياق وقوة الكلام يدل علي انه غر العليل واوهمه انه طبيب وليس كذالك وان ظن المريض انه طبيب واذن له في طبه لاجل معرفته ضمن الطبيب ماجنت يده وكذالك ان وصف له دواء يستعمله والعليل يظن انه وصفه لمعرفته وحذقه فتلف به ضمنه رالحديث ظاهر فيه او صريح(زاد المعاد في هدي العباد لابن القيم:4:129:ط:موسسة الرسالة بيروت وظاهر عبارة المؤلف أن الضمان ينتفي بعدم المجاورة وذكر في الجامع الصغير وحجامة العبد بأمر المولى حتى إذا لم يكن بأمر المولى يجب الضمان قال في الكافي عبارة المختصر ناطقة بعدم التجاوز وساكتة عن الإذن، وعبارة الجامع الصغير ناطقة بالإذن ساكتة عن التجاوز فصار ما نطق به هذا بيانا لما سكت عنه الآخر ويستفاد بمجموع الروايتين اشتراط عدم التجاوز والإذن لعدم وجوب الضمان حتى إذا عدم أحدهما أو كلاهما يجب الضمان اهـ. [البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 8/ 33]

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :610376
تاریخ اجراء :21-Mar-2022