کیا قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا درست ہے؟

سوال کا متن:

کیا قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا درست ہے؟

جواب کا متن:

Fatwa: 893-377/TD-Mulhaqa=11/1443

 صورت مسئولہ میں حکم یہی ہے کہ قربانی کے جانور میں اگر کئی افراد شریک ہوں تو گوشت کی تقسیم وزن کرکے کرنا ضروری ہے، اندازے سے تقسیم جائز نہیں ہے، خواہ تمام شرکاء اندازے سے تقسیم کرنے پر راضی ہوں ؛ البتہ اگر باہمی رضامندی سے تقسیم میں دیگر اعضاء، مثلا:کلہ(سری) پائے، کلیجی وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ کرلیا جائے اور ہر شریک کے حصے میں ان چیزوں میں سے کچھ نا کچھ آجائے تو خلاف جنس ہونے کی وجہ سے اندازے سے بھی تقسیم کرنا جائز ہوجائے گا ۔

قال الحصکفی : لا جزافا إلا إذا ضم معه من الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.قال ابن عابدین: (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية۔ ( الدر المختار مع ردالمحتار: ۶/۳۱۷، ۳۱۸، دار الفکر، بیروت ) لو أنہم اقتسموا لحمہا جزافا وحلل کل واحد منہم لأصحابہ الفضل لایجوز، لأن الربا لایحتمل الحل بالتحلیل … اقتسموا اللحم جزافا وفی نصیب کل واحد منہم شیئ مما لا یوزن کالرجل والرأس لا بأس بہ إذا حلل بعضہم بعضا۔ (فتاوی قاضیخان: ۳/۲۴۷، زکریا، دیوبند ، جدید،نیز دیکھیے:فتاوی محمودیہ:۲۶/۳۳۲، میرٹھ)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :612051
تاریخ اجراء :23-Jun-2022