ہمارے یہاں یعنی پرانی دہلی اور اس کے نواح میں شادی کی تقریب پر ایک نئی رسم ایجاد ہوگئی ہے کہ دولہا کی سلامی سے پہلے یا بعد میں دولہا اور دلہن کو ساتھ بٹھا کر [آمین شادی و رخصتی] جو کسی نعیم صدیقی تھانوی کی یا اور بھی دوسری

سوال کا متن:

ہمارے
یہاں یعنی پرانی دہلی اور اس کے نواح میں شادی کی تقریب پر ایک نئی رسم ایجاد ہوگئی
ہے کہ دولہا کی سلامی سے پہلے یا بعد میں دولہا اور دلہن کو ساتھ بٹھا کر [آمین
شادی و رخصتی] جو کسی نعیم صدیقی تھانوی کی یا اور بھی دوسری آمین کی کتاب جو
دوسرے عالموں کی لکھی ہوئی ہے پڑھی جاتی ہے۔ اس آمین کو شادی کی تقریب میں موجود
خواتین زور زور سے بآواز بلند پڑھتی ہیں اور بعض جگہ تو اگر آمین نہ پڑھی جائے تو
مانو کہ نکاح ہی نہیں ہوا۔ آمین پر اتنا زور دیتے ہیں کہ گویا آمین کا پڑھنا دین
ہے اور اس کو ترک کر دیا تو مانو شادی کے واجبات یا سنت کو ترک کر دیا ہو۔ یہ لوگ
نکاح کے موقع پر صحیح حدیث سے جو دعائیں دولہا اور دلہن کے لیے ثابت ہیں وہ تو دیتے
نہیں ۔میں تو دیکھتا ہوں کہ جو حضرات تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا جو اپنے
آپ کو دیوبندی کہتے ہیں انھیں حضرات کی خواتین اس میں زیادہ ملوث نظر آتی ہیں۔اور
انھیں علاقوں میں آمین زیادہ پڑھی جاتی ہے جس میں میں خود ناکارہ اور میرے گھر اور
میرے خاندان کے لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ ایک رسم و رواج کو وجود میں لایا جارہا ہے
جو بدعت ہے اورڈر ہے کہ آگے چل کر شرک تک نہ لے جائے۔ مہربانی کرکے اس کتاب اور آمین
کی حقیقت بتائیں اوریہ آمین کا پڑھنا قرآن اور حدیث کی روشنی میں کہاں تک صحیح ہے؟
کیا دعاء مسنونہ کی جگہ یہ آمین کا پڑھنا درست ہے؟ کیا یہ ایک نئی رسم اور بدعت نہیں
ہے؟ مکمل و مدلل جواب مطلوب ہے۔


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
ہمارے
یہاں یعنی پرانی دہلی اور اس کے نواح میں شادی کی تقریب پر ایک نئی رسم ایجاد ہوگئی
ہے کہ دولہا کی سلامی سے پہلے یا بعد میں دولہا اور دلہن کو ساتھ بٹھا کر [آمین
شادی و رخصتی] جو کسی نعیم صدیقی تھانوی کی یا اور بھی دوسری آمین کی کتاب جو
دوسرے عالموں کی لکھی ہوئی ہے پڑھی جاتی ہے۔ اس آمین کو شادی کی تقریب میں موجود
خواتین زور زور سے بآواز بلند پڑھتی ہیں اور بعض جگہ تو اگر آمین نہ پڑھی جائے تو
مانو کہ نکاح ہی نہیں ہوا۔ آمین پر اتنا زور دیتے ہیں کہ گویا آمین کا پڑھنا دین
ہے اور اس کو ترک کر دیا تو مانو شادی کے واجبات یا سنت کو ترک کر دیا ہو۔ یہ لوگ
نکاح کے موقع پر صحیح حدیث سے جو دعائیں دولہا اور دلہن کے لیے ثابت ہیں وہ تو دیتے
نہیں ۔میں تو دیکھتا ہوں کہ جو حضرات تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا جو اپنے
آپ کو دیوبندی کہتے ہیں انھیں حضرات کی خواتین اس میں زیادہ ملوث نظر آتی ہیں۔اور
انھیں علاقوں میں آمین زیادہ پڑھی جاتی ہے جس میں میں خود ناکارہ اور میرے گھر اور
میرے خاندان کے لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ ایک رسم و رواج کو وجود میں لایا جارہا ہے
جو بدعت ہے اورڈر ہے کہ آگے چل کر شرک تک نہ لے جائے۔ مہربانی کرکے اس کتاب اور آمین
کی حقیقت بتائیں اوریہ آمین کا پڑھنا قرآن اور حدیث کی روشنی میں کہاں تک صحیح ہے؟
کیا دعاء مسنونہ کی جگہ یہ آمین کا پڑھنا درست ہے؟ کیا یہ ایک نئی رسم اور بدعت نہیں
ہے؟ مکمل و مدلل جواب مطلوب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :17783
تاریخ اجراء :ہمارے یہاں یعنی ¦