كرسی پر بیٹھے شخص كے پاس قرآن لے كر بیٹھنا؟

سوال کا متن:

حضرت ہماری مسجد میں ایک مسئلہ بہت اختلاف پیدا کر رہا ہے کہ ایک آدمی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہے اور پاس ایک صاحب جھٹ سے قرآن لیکر یا کوئی ایسی کتاب جس میں میں قرآن کی آیات اور احادیث لکھی ہیں کبھی پاس بیٹھ کر یا کبھی کچھ فاصلے پر فاصلہ اتنا کہ تین یا چار صفوں کے برابر ہو یا اس سے بھی زیادہ یعنی ساری مسجد میں کہیں بھی کوئی کرسی پر بیٹھا ہے اور قرآن لیکر کہیں بھی بیٹھ جانا اور پڑھنا اتنی زوردار آواز سے کہ نمازیوں تک آواز پہنچ رہی ہو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے اب حضرت میں نے ان کو یہاں پر یہ بات کہی کہ اللّٰہ کا قرآن میں ارشاد ہے الذی خلق الموت والحیاة لیبلوکم احسن عملا یعنی اگر یہ قرآن کا ادب احسن درجہ کا ھوگا اتنا ہی اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں مقام زیادہ اور مرتبہ بلند ہوگا مطلب یہ کہ قرآن ادب زیادہ سے زیادہ کیا جائے تب ہی وحی کی برکات ہمارے لئے برکت کا باعث بنے گی اور اللّٰہ پاک بھی خوش ہوں گے تو کیا حضرت یہ جواب بھی ٹھیک ھے جتنا زیادہ قرآن کا ادب اتنا ہی زیادہ عمل خوبصرت بنے گا تو حضرت کچھ لوگ مسجد میں اس چیز کے پیچھے پڑے ہیں کہ ایسی صورتحال میں قرآن پڑھ سکتے ہیں کچھ اس بات کو قطعا ماننے کو تیار نہیں کیوں کہ یہاں ایک عالم نے کہا ہے کہ پڑھ سکتے ہیں کہ کوئی قرآن یا کوئی ایسی دینی کتاب جس میں اکثر قرآن کی آیات اور حدیث ہوں لیکر نیچے بیٹھ جائے ہاں جب نمازی نماز پڑھ کر فارغ ہو جائے تب قرآن لیکر نیچے بیٹھے یا قرآن یا کوئی کتاب پڑھنے والا بھی کرسی لے لے اور اس پر بیٹھ کر بیشک پڑھتا رھے یہ وہ باتیں ہیں جو مسجد کی صورتحال ہیں جس کی وجہ سے اختلاف و انتشار پیدار ہو رہا ہے اور پیدا ہونے کی وجہ بھی یہی ہے جتنا ان کو قرآن لیکر یا کوئی کتاب لیکر نیچے بیٹھنے سے منع کیا جاتا ہے وہ اتنا ہی کرتے ہیں اور ضد سے کرتے اور بیٹھتے ہیں تو برائے مہربانی آپ ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ کرسی پر بیٹھنے والوں اور قرآن پڑھنے والوں کے درمیان فاصلہ ملحوظ رکھا جائے گا یا نہیں یا سطح کو ملحوظ رکھا جا گا یا صرف یہ کہ قرآن صرف اوپر ہی رہنا چاہئے یا کرسی پر ہی بیٹھ کر پڑھا جائے برائے مہربانی یہ بات قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت سے بیان کردیں تاکہ مسجد میں ان کو یہ بات بتا کر امن کی شکل بنائی جائے اور اختلاف کو ختم کیا جاسکے ۔ حضرت یہ جواب جتنا آپ جلدی عنایت فرمائیں گے اتنا ہی جلدی امن کی شکل بنائی جاسکے گی۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 904-94T/L=8/1440
اس طرح کے مسائل کو اختلاف کا موضوع بنانا درست نہیں ،اس مسئلہ کا تعلق ادب سے ہے ضرورتاً جس کے ترک کی گنجائش ہوتی ہے گوحتی الوسع اس کی رعایت بہتر ہے۔(ولہا آداب) ترکہ لا یوجب إساء ة ولا عتابا کترک سنة الزوائد، لکن فعلہ أفضل.(الدرالمختار:2/۱۷۵،باب صفة الصلاة،ط:زکریا دیوبند)جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو اگر کوئی شخص کرسی یا چارپائی پر بیٹھا ہو تو اس کے پاس نیچے بیٹھ قرآن پڑھنا خلافِ ادب ہے ،بہتر ہے کہ کچھ فاصلہ پر قرآن کی تلاوت کی جائے ،اسی طرح اگر مسجد میں لوگ نماز وغیرہ میں مشغول ہوں تو زور سے تلاوت کرنا جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو درست نہیں ۔وفی حاشیة الحموی عن الإمام الشعرانی: أجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعة فی المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ إلخ ( رد المحتار:2/434،ط:زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :170022
تاریخ اجراء :May 1, 2019