دعوت الی اللہ کا نبوی طریقہ

سوال کا متن:

قابلِ احترام علماء کرام۔ بندہ کو ایک بات میں اشکال ہے اور وہ یہ کہ کہا جاتا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے ۔ جبکہ قرآنِ کریم میں بندہ کو یہ ملا ہے کہ اللہ تعالٰی، انبیاء علیہم السلام کو اُن کی قوموں میں بھیجتے تھے (جس میں سفر کرنا ضروری نہیں، لیکن ممکن ہے جیسے موسٰی علیہ السلام نے کیا) اور وہ اپنی اقوام کو بلاواسطہ مخاطبت کے ذریعے سے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ وحی کے ذریعے انذار و تذکیر کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔ ہاں بعض مرتبہ ایسے بھی ہوا کہ انبیاء علیہم السلام نے کسی اور کو خط دے کر اپنا پیغام پہنچایا ہو جیسے سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کے ذریعے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعے بادشاہوں کو خط بھیجے ۔ اس لئے بندہ کو تو یہ طریقہ متعین معلوم ہوتا ہے ۔ اگر تعین سے علماء کرام کی مراد کچھ اور ہے تو اس نالائق کی رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:707-73T/sd=8/1440
 ”دین کی دعوت واشاعت کا کوئی خاص طریقہ شرعًا متعین نہیں کیا گیا ہے ؛ بل کہ ضرورت ، تقاضہ اور زمانے کے اعتبار سے اُس کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں، مثلًا وعظ وخطابت، درس وتدریس، تصوف واحسان اور افتا وتصنیف وغیرہ، ان سب پر جزوی یا کلی طور پر دعوت کا مفہوم صادق آتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعوت کے لیے مختلف طریقے اختیار فرمائے ، کبھی خود بنفس نفیس تشریف لے گئے، کبھی صحابہ کرام کو بھیجا اور کبھی دعوتی خطوط روانہ فرمائے ، کبھی اکھٹا کرکے خطاب فرمایا اور کبھی انفرادا دعوت دی ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ فضائل اعمال میں آیت قرآنی ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ کے تحت لکھتے ہیں : مفسرین نے لکھا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی طرف کسی کو بلائے ، وہ اس بشارت اور تعریف کا مستحق ہے، خواہ کسی طریق سے بلائے ، مثلا: انبیاء علیہم الصلاة والسلام معجزہ وغیرہ سے بلاتے ہیں اور علماء دلائل سے بلاتے ہیں اور موٴذنین اذان سے ، غرض جو بھی کسی شخص کو دعوت الی الخیر کرے، وہ اس میں داخل ہے، خواہ اعمال ظاہرہ کی طرف بلائے یا اعمال باطنہ کی طرف، جیساکہ مشائخ صوفیہ معرفت اللہ کی طرف بلاتے ہیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :169855
تاریخ اجراء :May 2, 2019