بلی کی جفتی کا پیسہ لینا کیا جائز ہے؟

سوال کا متن:

بلی کی جفتی کا پیسہ لینا کیا جائز ہے؟ اور بلی کی خرید و فروخت جائز ہے؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1110-1019/L=10/1440
(۱) نرجانور سے جفتی کرانے پر اجرت کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال: نہی النبی صلی اللہ عیہ وسلم عن عسب الفحل․ (البخاری، کتبا الإجارات، باب عسب الفحل) وفی ہامشہ: ولم یرد النہی عن الإعارة؛ لأن فیہ قطع النسل، وإنما حرم الکراء لما فیہ من الغرر، إذ ہو شیء غیر معلوم، ولا یدری ہل یلقح أم لا؟ وہل تعلق الناقة أم لا؟ (صحیح البخاری ۳۰۵/۱) وقال الحصکفی: لا تصح الإجارة لعسب التیس، وہو نزوہ علی الإناث؛ لأنہ مل لا یقدر علیہ وہو الإحبال (الدر المختار مع رد المحتار: ،ط:زکریا دیوبند)․
(۲) بلی کی خرید وفروخت جائز ہے ۔
 وأما بیع کل ذی ناب من السباع سوی الخنزیر کالکلب، والفہد، والأسد والنمر، والذئب، والہر، ونحوہا فجائز عند أصحابنا.(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 5/ 142، الناشر: دار الکتب العلمیة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :171001
تاریخ اجراء :Jul 7, 2019