تعویذ گنڈہ كركے معاوضہ لینے كا حكم

سوال کا متن:

ایک پڑے عہدے پر شہر کے ایک بڑے مفتی صاحب فائز ہیں جو کہ قوم کے رہنما بھی ہیں ایک بڑے ادارے میں استاد حدیث بھی ہیں لیکن ان کے چند کام ایسے ہیں جن کی وجہ سے شہر کے علماء و عوام دونوں کو تشویش ہے حالانکہ وہ خانقاہ بھی چلاتے ہیں لوگوں کو بیعت بھی کرتے ہیں حضرت کے کاموں کی تفصیل یہ ہے ١ بالوں میں کالا خضاب لگاتے ہیں جبکہ حضرت کی عمر تقریباً ٥٥سال ہے٢تعویذ و گنڈو کی با قاعدہ بیٹھک کرتے ہیں جس میں خواتین کا ہجوم ہوتا ہے تعویذ گنڈے پر باقاعدہ اجرت لیتے ہیں ایک اجنبیہ لڑکی کو ٹوکن دینے کے لئے رکھے ہوئے ہیں ٣شھر قاضی بننے کے اس قدر حریص ہیں کہ شہر کے علماء کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس لگا رکھا ہے ان کو ہائی کورٹ سے نوٹس دلوا رہے ہیں اور ان حضرات کو انکے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں تو کیا ہائی کورٹ کا سہارا لے کر عہدہ طلب کرنا درست ہے؟٤علماء کے خلاف مساجد کی زمین کے خلاف فتویٰ جاری کر دیتے ہیں ضلع دھار میں ایک مسجد ہے جس میں نماز وپوجا ہوتی ہے اس کا ہائی کورٹ میں کیس چل رہا تھا فیصلہ مسجد کے حق میں آنے کے قریب تھا حضرت نے مسجد کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا جس سے کیس متاثر ہو گیا ٥ شہر کے ایک بڑے مفتی صاحب کی بہو کی طلاق کا واقعہ پیش آگیا تو یہ مفتی صاحب اس لڑکی سے گھنٹوں موبائل پر گفتگو کرتے ہیں اس کو سسر مفتی صاحب کے خلاف ورغلاتے ہیں اس کا تعاون کرتے ہیں حالانکہ ان مفتی صاحب کا اس لڑکی سے کسی طرح کا بھی رشتہ نہیں ہے مہربانی فرما کر اطمینان بخش جواب تحریر فرمائیں نیز یہ بھی بتلائیں کہ کیا ایسے مفتی صاحب کو عہدے پر رہنے کا حق حاصل ہے سائل مفتی محمد راشد

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1361-229T/SN=1/1440
خالص سیاہ خضاب کے استعمال پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے، ایک حدیث میں تو یہ مضمون آیا ہے کہ سیاہ خضاب استعمال کرنے والا جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا؛ اس لئے خالص سیاہ کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی اور باعث فسق ہے، رہا لوگوں کو تعویذ دینا تو اگر آیات کریمہ اور مباح ومسنون ادعیہ وغیرہ سے کوئی شخص تعویذ دے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے نیز اس پر معاوضہ لینابھی جائز ہے گو کسی مقتدا شخص کے لئے تعویذ گنڈے کو بطور پیشہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے؛ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تعویذ گنڈہ کرتے وقت عورتوں سے بے محابا گفتگو کرنا یا ان کے ساتھ ہنسی مذاق وغیرہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، ا س سے احتراز ضروری ہے ۔ ان دونوں چیزوں کے علاوہ جو باتیں آپ نے سوال میں ذکر کی ہیں، ان کی نوعیت کسی فرد پر الزامات کی ہے اور اس طرح کی باتوں پر اسی وقت کوئی حتمی حکم لگایا جاسکتا ہے جب فریق ثانی کا بھی بیان مع دستخط آئے اور صورت مسئولہ میں ایسا نہیں ہے؛ اس لئے ان سے متعلق حکم لکھنے سے معذرت ہے؛ باقی آپ یہ چیزیں مقامی معتبر علماء و مفتیان کی خدمت میں پیش کرسکتے ہیں، وہ اصل واقعے کی تحقیقات کرکے مناسب رہنمائی کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :164950
تاریخ اجراء :Sep 20, 2018