سوال کا متن:
سلام عرض ہے کہ زید ایک ٹھیکیدار ہے جو سرکار کی طرف سے ٹھیک لیتا ہے مثال کے طور پر سڑک کا ٹھیکہ زید کو سڑک کے بنانے کے دس لاکھ روپے ملتے ہیں اب زید سڑک پر چھ لاکھ روپے لگاتا ہے اور چار لاکھ روپے بچاتا ہے شرعی نقطہ نظر سے چار لاکھ روپے جو زید نے بچائے حلال ہے یا حرام ہے زید اس کے اندر رشوت دی دیتا ہے یہ ٹھیکہ لینے کے لیے دوسرے بڑے ادھیکار یوکو کیا ہے اس مسئلہ کی حقیقت پوری وضاحت کے ساتھ عنایت فرمائیں۔
جواب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:731-699/sd=7/1439
ٹھیکہ میں رقم بچانے کے شرعی حکم کا مدار باہم طے شدہ معاہدے پر مبنی ہے ، جس نوعیت کا ٹھیکہ لیا گیا اور سڑک کے جو اوصاف متعین کیے گئے ہیں، اس کی پابندی ضروری ہے ، اس کے ساتھ جتنا نفع ہو، اس کو لینا جائز ہے ، جھوٹ، دھوکہ اور غلط بیانی کر کے پیسے بچانا جائز نہیں ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Fatwa:731-699/sd=7/1439
ٹھیکہ میں رقم بچانے کے شرعی حکم کا مدار باہم طے شدہ معاہدے پر مبنی ہے ، جس نوعیت کا ٹھیکہ لیا گیا اور سڑک کے جو اوصاف متعین کیے گئے ہیں، اس کی پابندی ضروری ہے ، اس کے ساتھ جتنا نفع ہو، اس کو لینا جائز ہے ، جھوٹ، دھوکہ اور غلط بیانی کر کے پیسے بچانا جائز نہیں ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند