انشورنس کمپنی اور بینک کی نوکری

سوال کا متن:

بریلوی علماء انشورنس کمپنی اور بینک کی نوکری کو حلال کہتے ہیں کیونکہ فقہ احناف کی کتابوں میں غیر اسلامی ملکوں میں انٹریسٹ منی بینک (سودی پیسوں کا بینک) میں نوکری کو حلال کہا گیا ہے، جب کہ دیوبندی علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ عندالاحناف اس اختلاف میں کون صحیح ہے؟ حلال و حرام کا مسئلہ ہے تفصیل سے بتائیں۔ جزاک اللہ

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 666-812/sd=7/1438
بینک کی ایسی ملازمت جس میں آدمی کو سودی حساب لکھنا پڑے یا سودی لین دین مثلاً لون، فکسڈ ڈپازٹ کے دستاویزات کی تائید یا توثیق کرنی پڑتی ہو شرعاً جائز نہیں ہے؛ یہ حکم ہندوستان جیسے غیراسلامی ممالک میں بھی ہے، بریلوی علماء نے جو جواز کی بات کہی ہے وہ صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ فقہِ حنفی میں دارالحرب میں سودی لین کے جائز ہونے کا جو قول ملتا ہے وہ ایک مرجوح قول ہے، راجح عدمِ جواز ہی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جواز کا قول بھی کچھ ایسی شرطوں کے ساتھ مقید ہے جنھیں ملحوظ رکھنا عملاً دشوار ہے، ان شرائط میں یہ ہے کہ وہ محل دارالحرب ہو، معاملہ ربا کا حربی سے ہو، مسلم اصلی سے نہ ہو اور نہ ذمی سے ہو اور مسلم اصلی وہ ہے جو دارالحرب میں آنے سے قبل اسلام لایا ہو خود یا تبعًا للآباء، نیز یہ بھی شرط ہے کہ معاملہ کرنے والا وہ مسلم ہو جو دارالاسلام سے دارالحرب میں امن لے کر آیا ہو یا وہ مسلم ہو جو دار الحرب ہی میں اسلام لایا ہو، وہ مسلم اصلی نہ ہو۔ (دیکھیں امداد الفتاوی: ۳/ ۱۵۷، ط: زکریا)
اور ظاہر ہے کہ ہندوستان جیسے ممالک میں جو لوگ جائز سمجھ کر سودی لین کرتے ہیں وہ بھی ان شرطوں کو ملحوظ نہیں رکھتے، مثلاً ربوی معاملہ کا جواز حربی سے ہے؛ لیکن عملاً لوگ اس کا لحاظ نہیں رکھتے؛ بلکہ مسلم اصلی اس طرح ان غیرمسلموں سے بھی معاملہ کرتے ہیں جو دارالاسلام ہونے کے وقت سے ہی ذمی چلے آرہے ہیں؛ اس لیے اگر اس مرجوح قول پر بھی فتویٰ دیا جائے پھر بھی ان شرطوں کی رعایت نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان جیسے ممالک میں معاملات ربویہ ناجائز ہی رہیں گے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: امداد الفتاوی: ۱۵۵ تا ۱۶۰، مسائل سود ۱۲۸ تا ۱۴۸، ط: مکتبہ حراء دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :149188
تاریخ اجراء :Apr 25, 2017