كیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كبھی اذان دی ہے؟

سوال کا متن:

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اذان دی یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ میں لوگوں میں یہ سنتے آرہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اذان نہیں دی، کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان دیتے تو ساری کائنات رک جاتی۔
مہربانی کرکے میرے سوال کا جواب دیں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 262-251/N=4/1438
 (۱، ۲): تحقیق یہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار اذان دی ہے جیسا کہ بعض روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے، وہ روایات ان علما پر حجت ہیں جو اس طرح کی بعض روایات میں تاویل کرتے ہیں ؛ کیوں کہ ان صریح اور واضح روایات میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔ ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان بنفسہ؟ وقد أخرج الترمذي أنہ علیہ الصلاة والسلام أذّن في سفر وصلی بأصحابہ وجزم بہ النووي وقواہ، ولکن وجد في مسند أحمد من ہٰذا الوجہ ”فأمر بلالاً فأذّن“ فعلم أن في روایة الترمذي اختصاراً وأن معنی قولہ أذن أمر بلالاً کما یقال أعطی الخلیفة العالم الفلاني کذا وإنما باشر العطاء وغیرہ (رد المحتار، ۲:۷۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن ابن حجر) ، روی عقبة بن عامر قال: کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فلما زالت الشمس أذن بنفسہ وأقام، وصلی الظہر۔ وقال السیوطي: ظفرت بحدیث آخر مرسل، أخرجہ سعید بن منصور في سننہ، قال: أذّن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرةً، فقال: حي علی الفلاح، وہٰذہ روایة لا تقبل التاویل، واللّٰہ سبحانہ تعالیٰ أعلم (تقریرات الرافعي ۲:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ونقل قول السیوطي في شرح الزرقاني علی الموطأ ، باب ما جاء في النداء للصلاة ۱:۲۶۳، المکتبة الشاملة) ، عن عقبة بن عامر قال: کنت مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فلما طلع الفجر، أذن وأقام، ثم أقامني عن یمینہ وقرأ بالمعوذتین، فلما انصرف، قال: کیف رأیت؟ قلت: قد رأیت یا رسول اللّٰہ! قال: فاقرأ بہما کلما نمت وکلما قمتَ (المصنف لابن أبي شیبة ۶:۱۴۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :147332
تاریخ اجراء :Jan 10, 2017