کیا مشت زنی گناہ کبیرہ میں داخل ہے؟

سوال کا متن:

حضرت، میں نے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا تھا کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ اور کیا مشت زنی بھی کرنا گناہ کبیرہ میں داخل ہے؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:654-553/N=7/1439
(۱): قرآن وحدیث میں گناہ کبیرہ کی کوئی متعینہ تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے اور گناہ کبیرہ کی تعدد کے سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس کے سامنے کسی نے گناہ کبیرہ کی تعداد سات بتلائی تو آپ  نے فرمایا: سات نہیں، سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ اور علامہ ابن حجر مکی نے اپنی کتاسب: الزواجر میں کبیرہ گناہوں کی تعداد ۴۶۷تک پہنچائی ہے۔ اور حضرت مولانا شاہ محمد ابرار الحق صاحب نور اللہ مرقدہ کے مدرسہ سے ایک پرچہ شائع ہوتا ہے، اس میں بعض بڑے گناہوں کی تعداد پچاس لکھی ہے۔حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ بعض نے بڑے بڑے ابواب معصیت کو شمار کرنے پر اکتفا کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے اور بعض نے ان کی تفصیلات اور انواع واقسام کو پورا لکھا تو تعداد زیادہ ہوگئی ؛ اس لیے یہ کوئی تعارض واختلاف نہیں ہے (معارف القرآن، ۲: ۳۸۵)۔
(۲): جی ہاں! مشت زنی گناہ کبیرہ میں داخل ہے۔
ولا یحل - أي: الاستمناء بالکف- لہ إن قصد بہ قضاء الشھوة لقولہ تعالی: والذیبن ھم لفروجھم حافظون إلا علی أزواجھم أو ما ملکت أیمانھم إلی أن قال: فمن ابتغی وراء ذلک فأولئک ھم العادون أي: الظالمون المتجاوزون، فلم یبح الاستمتاع إلا بھما فیحرم الاستمتاع بالکف الخ (تبیین الحقائق، ۱: ۳۲۳، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)، ولا یحل الاستمناء بالکف، ذکرالمشایخ فیہ أنہ علیہ السلام قال: ناکح الید ملعون (فتح القدیر، کتاب الصوم)، والاستمناء حرام وفیہ التعزیر(الجوہرة النیرة، ۲: ۲۴۵، ط: دار الکتاب دیوبند)،وھل یحل الاستمناء بالکف خارج رمضان؟ إن أراد الشھوة لا یحل لقولہ علیہ السلام: ناکح الید ملعون الخ (البحر الرائق، ۲: ۴۷۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :159196
تاریخ اجراء :Apr 4, 2018