براہ کرم، درج ذیل حديث ملاحظہ فرمائیں جو مجھے آج ایک دوست نے بھیجی ہے۔ یہ حدیث واضح طور پر تعویذ پہننے کی مذمت کرتی ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ دیوبندی علماء اس کو درست مناتے ہیں (حتی کہ الامام اشرف علی تھانوی) اور اسے رسول

سوال کا متن:

براہ کرم، درج ذیل حديث ملاحظہ فرمائیں جو مجھے آج ایک دوست نے بھیجی ہے۔ یہ حدیث واضح طور پر تعویذ پہننے کی مذمت کرتی ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ دیوبندی علماء اس کو درست مناتے ہیں (حتی کہ الامام اشرف علی تھانوی) اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف نہیں مانتے ہیں۔ کیا دیوبندی علماء جو تعویذ پہننے کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں اس میں اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے؟ براہ کرم، وضاحت فرمائیں۔


وہ حدیث یہ ہے: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی تعویذ پہنے، اللہ اس کی حاجت نہ پوری کرے۔ اگر کوئی بحری سیپ پہنے اس کو کچھ آرام نہ ہو۔ (رواہ احمد و حاکم)

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 607/ب=576/ب)
 
عن عوف بن مالك کنا نرقی في الجاھلیة فقلنا یا رسول اللہ کیف تری في ذلک، فقال أعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک رواہ مسلم (مشکوٰة: 2/388) عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلِّمھم من الفزع کلمات أعوذ بکلمات اللہ التامة من غضبہ وشر عبادہ ومن ھمزات الشیطان وأن یحضرون. وکان عبد اللہ بن عمرو یعلمھن من عقل من بنیہ ومن لم یعقل کتبہ فاعلقہ علیہ رواہ أبوداووٴد وغیرہ (أبوداوٴود: ج2 ص543، ط رشیدیة بدہلي)
 
ان دونوں احادیث کے علاوہ دیگر احادیث سے بھی جھاڑ پھونک اور تعویذ کے جواز کا پتہ چلتا ہے۔ جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں، جب کہ تعویذ کو نافع اور ضار سمجھا جائے جیسا کہ لوگ زمانہٴ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا اس طرح کے تعویذ پر محمول ہے جس میں شرکیہ و کفریہ کلمات لکھے ہوں، یا جس کے معنی معلوم نہ ہوں؛ لیکن اگر اسمائے حسنیٰ اور دیگر آیاتِ قرآنیہ لکھ کر لٹکایا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ ملاحظہ ہو، فیض القدیر: 6/107و 6/181و شامي: 9/123، ط زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :785
تاریخ اجراء :براہ کرم، درج ذی