صرف ’’محمد‘‘ نام ركھنا كیسا ہے؟

سوال کا متن:

میر ے پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے، میں نے دعا کی تھی کہ اگر بیٹا پیدا ہوا تو میں اس کا نام” محمد“ رکھوں گا، تو اب بیٹے کی پیدائش کے بعد گھروالے بول رہے ہیں کہ اکیلا نام” محمد“ صحیح نہیں ، تو کیامیں اس کے نام ”محمد “کے بعد کوئی اور نام اضافہ کرسکتاہوں کہ نہیں؟ میں بیٹے کا نام ”محمد روہن حیدر(mohammad rohaan haider)“ سوچ رہاہوں، تو کیا میں یہ نام کھ سکتاہوں؟ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1219-134T/L=10/1440
”محمد“ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبروں کے سردار رسولوں کے امام خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تجویز فرمایا اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے؛ لہذاآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک پر اپنے بچوں کا نام محمد رکھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحسن ہے، یہ نام صحابہ کرام سے لے کر آج تک مسلمانوں میں رائج ہے، ہزاروں محدثین اور علماء کے نام محمد رہے ہیں، احادیث میں انبیاء کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب آئی ہے؛ بلکہ حدیث میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے نام پر نام رکھنے کی صراحت موجود ہے، اگر برکت کے لیے یہ نام کسی بچے کا اس نیت سے رکھ دیا جائے کہ وہ اسوہ نبوی پر چلے گا تو امید ہے کہ نیت کی برکت بھی ظاہر ہوگی اور بچہ اخلاق واعمال میں شریعت وسنت کا پابند ہوگا۔
وقال النّبیّ -صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم۔ فی حدیثٍ طویلٍ، وفیہ: تسمّوا باسمی الخ․ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو․․․․․ (مسلم، کتاب الأدب، باب النہی عن التکنی بأبی القاسم) قال المناوی وعبد اللّٰہ أفضل مطلقًا حتّیٰ من عبد الرّحمٰن وأفضلہا بعدہما محمّد ثمّ أحمد ثمّ إبراہیم․ (شامی: ۵۹۷/۹) وقد نقل أنّ فیہا تُربة المُحمّدِین، دُفِن فیہا نحو من أربعمائة نفس کلٌّ منہم یقال لہ محمّد․(شامی: ۱۵۰/۱/المقدمة، ط: زکریا)
حاصل یہ ہے کہ صرف ”محمد“نام رکھنا بھی جائز ہے اور اگر اس کے ساتھ کوئی اور نام ملالیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ،اگر آپ اسی انداز پر نام رکھنا چاہتے ہیں تومحمد روہان کی جگہ محمد ریحان لڑکے کا نام تجویز کرلیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :171318
تاریخ اجراء :Jul 7, 2019